جما لیا تھا۔ جس کی وجہ سے کوئی حساس مؤمن ان کے خلاف قدم اٹھانے کے لئے جرأت نہیں رکھ سکتا۔مگر خدا کا فضل اور اس کی نصرت اس عاجز کی کوششوں کے ساتھ شامل حال تھی کہ ریاستی مسلمانوں میں سے بجز دوچار آدمیوں کے اور کسی نے ان کا مذہبی ساتھ نہیں دیا۔ ورنہ اگر خداتعالیٰ کا فضل نہ ہوتا اور اس عاجز کو تن تنہا ان کے مقابلہ کے لئے اس قدر طویل عرصہ میں جرأت اور دلیری نہ دی جاتی تواس اسلامی ریاست میں جس کی آبادی سو فیصدی مسلمان ہیں۔ وہ مذہبی انقلاب برپا ہو جاتا۔ جس کی اصلاح کے لئے تمام دست اور بازو بیکار رہ جاتے۔ ’’ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشائ‘‘
فتنہ مرزائیت کی آخری موت اور موجودہ فرمانروائے ریاست
جناب محمد فرید خان صاحب بہادر
جناب ممدوح نے جب عنان حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا تو ان کے دور حکومت کی تاریخ گویا مرزائیت ریاست کا آخری صفحہ تھا۔ جناب موصوف نے ریاست کی مالی، سیاسی، اقتصادی حالات کے درست کرنے کے لئے تب قدم اٹھایا۔ جب کہ اپنے ایمانی جذبات کے ماتحت فتنہ مرزائیت کو غبار کے مانند ریاست سے اڑا دیا۔ اہل ریاست کے مذہبی تحفظ کی خاطر مرزائیوں کو جلاوطن کر دیا گیا۔ جو ریاست کی تاریخی زندگی میں یہ ایک ضروری اور جدید انقلاب تھا۔ دراصل یہ شاندار واقعہ اس خدائے قدوس کے منتقم ہاتھ کی حرکت کا ایک واضح نتیجہ تھا۔ یہ واقعات ہر ایک حساس مؤمن کے لئے باعث عبرت ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ دین حق کی حمایت کے لئے خدائے قیوم کا غیرمرئی ہاتھ ہر وقت متحرک رہا کرتا ہے۔ نشیب وفراز کے پیش آنے پر کبھی مایوس نہ ہونا چاہئے۔
فاعتبرو یا اولی الابصار!
میری وفادارنہ کارکردیوں کے صلہ میں جو والیان ریاست سے سندات اور سرٹیفکیٹ ملے ہیں وہ ذیل میں درج ہیں۔ میری پچھلی کارگزاریوں اور وفاداریوں کے لحاظ سے جو نواب صاحب سرمحمد خانی زمان خان کے۔ سی۔ آئی ای۔ والئی ریاست انب نے سندات مرحمت فرمائے۔ ان کی تعداد وشمار گو کہ زیادہ ہے۔ لیکن یہاں دو ہی سندات کو حوالۂ قلم کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔