رفتاری کو اپنے جذبہ خواہشات کے خلاف سمجھ کر اپنے لئے باعث توہین وتذلیل سمجھا اور پہلو وہررنگ سے اس رفتار کے مٹانے کے لئے مقدور بھر کوششیں کیں۔ لیکن مسلمانان ریاست کو حکم مصدرہ شرعیہ کے آگے چاروناچار سرتسلیم خم کرنا پڑتا تھا۔
سمندر خان مرزائی کی مسلمہ ماں کے جنازہ سے مرزائیوں کا اخراج
سمندر خان مرزائی جو ایک قائدانہ اور مبلّغانہ حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی ماں کا انتقال ہوا۔ چونکہ وہ سنی المذہب تھی۔ اس لئے اس خادم اسلام نے اس کی تجہیز وتکفین کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا۔ جس سے مرزائیوں کے طاغوتی جذبات بے حد مشتعل ہوگئے اور ریاست کے برسر اقتدار مرزائیوں نے جمعیت کی تشکیل میں موقعہ پر پہنچ کر مزاحمت اور فساد کے لئے آمادگی اختیار کی۔ لیکن اسلامی اوج اور شان کا علم ہمیشہ بلند ہی رہا کرتا ہے۔ اس لئے وہ کامیاب نہ ہوسکے اور صلوٰۃ جنازہ کے مراسم کو میں نے خود ادا کیا اور مرحومہ کے مرزائی بیٹوں وغیرہ مرزائی اکابر کو جنازہ کی حدود سے جبراً نکال دیا گیا۔
فتنۂ مرزائیت اپنے آخری مراحل پر
بمقام دربند ۱۹۳۵ء کو بدستور سابق میں نے جمعہ کے دن مرزائیت کے خلاف تبلیغ کرتے ہوئے مرزائیت کے تباہ کن جراثیم سے مسلمانان ریاست کو آگاہ کیا۔ جس سے مرزائیوں نے اشتعال کھا کر میری تقریر اور تبلیغ کے خلاف مجمع عام میں تمسخر اڑائے اور امامنا امام اعظم ابوحنیفہؓ وغیرہ فقہائے کرام کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا استعمال کیا۔ میں نے بمع قاضی صاحب عبداﷲ آف کھمیاں کے نواب صاحب کے پاس حاضر ہوکر ان کو فوری توجہ دی اور کہا کہ اگر مرزائیت کے خلاف کوئی جابرانہ قدم نہ اٹھایا جائے تو ملک میں بدامنی اور انقلاب پیدا ہونے کا خطرہ ہے اور ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ نواب صاحب نے متأثر ہوکر اس موجودہ وقت کے حاضرین مرزائیوں کو اپنے خاص اجلاس میں طلب کر کے جلاّدوں کے ہاتھ سے عبرتاً ان کو تازیانے لگائے اور بعضوں کو جلاوطن کیاگیا اور بعض سزائے قید کے شکار ہوئے۔ چونکہ بعض مرزائی اکابر اس وقت ریاست میں موجود نہیں تھے۔ اس لئے حکومت ریاست کے اس فوری اور بے پناہ حملہ سے وہ بچ گئے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے موقعہ پا کر خارج کردہ اور محبوس شدہ مرزائیوں کو آزادی دلا کر اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر پھر مقرر کرادیا اور ریاست کے سادہ لوح مسلمانوں پر مرزائی احکام نے پھر وہ تسلط