میں: جب تک مرزائیت کے فتنہ کا ریاست میں قلع قمع نہ ہوگا۔ تب تک میرا ریاست میں قیام رکھنا ناممکن ہے۔ کیونکہ ایک طرف مرزائی طبقہ ہمارے عزیز مذہب اور پیشوایان دین کے ساتھ تمسخر اڑائیں اور دوسری طرف خاموشی اختیار کر کے اس جرم عظیم کو کس طرح گوارا کیا جائے۔
نواب صاحب: مرزائیوں کو اس مذہبی آزادی سے قطعاً منع کر دیا جائے گا۔ آپ بدستور استقامت کے ساتھ تبلیغی کوشش کرتے رہیں۔ آپ کے احترام وعزت میں سرمو تک بھی فرق نہ آئے گا۔ چنانچہ آپ نے اس وعدہ کو قرآنی حلف کے ساتھ نیز مؤکد فرمایا۔ اگرچہ مجھے قوی اعتماد نہیں تھا۔ کیونکہ مرزائیوں نے نواب صاحب کے خیالات کو منتشرکرنے کی بلیغ کوشش کی تھی جو وہ ایک حد تک مایوس کن تھی۔ لیکن نصرت قیومی کی بارش کا نزول مایوسی کے ہجوم لانے کے بعد دفعتہ بھی ہو جایا کرتا ہے۔ اس لئے بامید فتح ہجرت کے ارادہ کو فسخ کر لیا گیا۔ بعد ازاں فتنہ مرزائیت کی قوت میں اگرچہ پستی اور کمزوری پیدا ہوگئی تھی۔ مگر تاہم وہ اپنے مذہبی اشاعت سے باز نہ آتے تھے۔
مرزائیوں کے جنازہ سے بائیکاٹ اور اس سلسلہ میں تہدیدی احکام
اس دوران میں بمقام انب احمد نام مرزائی کا انتقال ہوا۔ چونکہ متوفی مرزائی کے قبائل اور عشاتر کے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں وہاں آباد تھے۔ لہٰذا اہل قبیلہ نے اس کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ میں شمولیت کے لئے تہیہ کر لیا اور ریاستی مرزائیوں کی برسر اقتدار جماعت نیز وہاں حاضر ہو گئی تھی۔ پس اس خادم اسلام نے اپنی فوری تدابیر کے ماتحت اس مرزائی کے جنازہ وغیرہ سے کلی بیزاری کا حکم دے دیا۔ جو چشم زدن میں اس حکم نے جملہ اطراف میں گشت لگاکر اس کے تمام مسلمان قبیلہ کو بائیکاٹ کرنے کے لئے متاثر کر دیا۔ جو اس کے تمام اقارب نے یک لخت اس سے بیزاری اختیار کر کے آئندہ کے لئے نیز بائیکاٹ کرنے کا عہد کیا۔ اگرچہ ذی اقتدار مرزائیوں نے باقی لوگوں کی شمولیت کے لئے انتہائی کوششیں کیں۔ مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ نیز مرزائیوں کے جنازہ کے اور بھی کئی ایسے واقعات پیش آتے رہے اور کلی بائیکاٹ بھی ساتھ ہوتی رہی۔ ریاستی مرزائیوں نے اگرچہ مسلمانوں کی اس بیزاری کی تیز