کے خلاف جلسوں کا انعقاد کیاگیا۔ فتنۂ مرزائیت اور ریاست کی اس ناعاقبت اندیشی کے خلاف تقریریں ہوئیں اور نواب صاحب والئی ریاست کو توجہ دی گئی کہ جلد تر اس مذہبی خرابی کی اصلاح کی جائے۔
بعض آزاد قبائل کی طرف سے میرے نام خطوط
چونکہ پیشتر ازیں تمام ملحقہ غیر قبائل میں فتنۂ مرزائیت کی غلاظت وعفونت کی خبریں پہنچ چکی تھیں اور میرے ومرزائیوں کے مابین جو مذہبی جنگ جاری تھی۔ اس سے تمام آزاد قبائل مطلع اور باخبر تھے۔ لہٰذا میرے اس ارادہ ہجرت سے ان پر بہت کچھ اضطرابی اثر پیدا ہوا اور میری ہمدردی میں انہوں نے مظاہروں کا آغاز کیا۔ ان سے نواب صاحب بہت متاثر ہوئے۔ اکثر اراکین قبائل نے میری ہمدردی میں جو میرے ساتھ نامہ وپیام کا سلسلہ جاری کیا وہ ان کے مذہبی جوش کا نتیجہ تھا۔
جناب نواب صاحب بہادر کی جانب سے میرے پاس وفد کا آنا
اور مجھے ارادہ ہجرت کے فسخ کرنے پر مجبور کرنا
جب نواب صاحب بہادر کو ملک میں اس بے چینی اور ہنگامہ خیز واقعات کا احساس ہوا اور ریاست میں بدامنی پیدا ہونے کا خطرہ معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے ایک خاص الخاص خانو نام مصاحب کو ان کے چند ایک باقی رفقاء کے ساتھ میرے پاس بھیجا۔ جس نے نواب صاحب کی جانب سے نہایت تسلی بخش اور اطمینان دہ پیغامات لا کر میرے ارادہ ہجرت کے فسخ کرنے کے لئے مزید کوشش کی اور اس بارہ میں متعدد دفعہ آمدورفت کی۔ لیکن وہ ہر بار بے نیل ومرام واپس ہوتا رہا۔ کیونکہ میرا مقصد صرف یہی تھا کہ فتنۂ مرزائیت کا استیصال ہو جائے۔ باقی کسی دنیاوی اعزازات کے حاصل کرنے کی توقع نہیں تھی۔ آخر کار نواب صاحب کو جب مایوسی ہوئی تو ایک دوسرا وفد جو کہ میرے عزیز اقارب پر مشتمل تھا۔ یعنی جناب اخویم قاضی صاحب شیرگڑھ وپسرش قاضی غلام یحییٰ وبرادرم قاضی عبدالغنی وغیرہ کو میرے پاس بھیجا۔گفت وشنید ہونے پر انہوں نے اپنی انتہائی کوشش کے زیر اثر مجھے نواب صاحب کے پاس حاضر کراکر تبادلۂ خیالات کرنے کے لئے مجبور کیا۔ مجلس عامہ میں گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد میرا اور نواب صاحب کا جو خاص تخلیہ ہوا۔ وہ ذیل کے تبادلۂ خیالات پر مشتمل تھا۔