نواب صاحب: کیا اس مذہبی مخالفت کا محرک محمد فرید خان نہیں ہے؟ یاکہ سید عبدالجبار شاہ صاحب کے دبانے کے لئے والئی سوات صاحب کا ہاتھ اس میں نہیں ہے؟
میں: یہ بالکل مرزائیوں کی دروغ بافی اور غلط بیانی ہے۔ سچ ہے۔ ’’الغریق یتشبث بکلک حسیس‘‘ یعنی ڈوبا ہوا شخص ہر ایک تنکا کے پکڑنے کے لئے ہاتھ لمبا کرتا ہے۔
برعکس نہند نام زنگی کافور
غرض مرزائی طبقہ نے اپنے مختلف خود ساختہ واقعات کے زیر اثر نواب صاحب کو اس بات پر آمادہ کر دیا کہ مرزائیت کے خلاف ریاست میں تبلیغ نہ ہونے پائے۔ چنانچہ اس مضمون کا مراسلہ نواب صاحب نے میرے نام صادر فرما کر پابندیاں عائد کر دیں۔
ریاست سے ہجرت کرنے پر میری آمادگی
اور مسلمانان ریاست وقبائل غیر میں ہیجان واضطراب
چونکہ یہ خادم اسلام دین حق کی خاطر عزیز سے عزیز چیز کو بھی خیرباد کہنے کے لئے آمادہ رہا کرتا تھا اور ملت حنیف کے لئے ہر مصیبت کو صبر واستقلال سے برداشت کرنے میں کوئی کوتاہی روا نہیں سمجھتا۔ اس لئے خدا کے فضل سے مرزائیت یا کہ ریاست کی کسی طاقت سے مرعوب ہوکر دین حق کے بیان کرنے سے میں نے کوئی خاموشی اختیار نہیں کی۔ بلکہ مذہبی تبلیغ کے سلسلہ کو بدستور جاری رکھا اور مرزائیت کے خلاف میری نقل وحرکت کے متعلق جس قدر پابندیاں منجانب حکومت ریاست عائد کی گئی تھیں۔ ان کے مطابق میں نے کوئی عمل نہیں کیا۔ رفتہ رفتہ جب بعض ایسے دلخراش اور مذہبی ناگفتہ بہ واقعات در پیش آگئے۔ جن کے پیش نظر میرے لئے ریاست میں قیام رکھنا باعث گناہ متصور تھا۔ اس لئے میں نے ہجرت کا اعلان کر دیا۔ مگر ادھر اعلان کرنا تھا تو ادھر ملک میں چاروں طرف سے اضطراب وہیجان کا طوفان بلند ہوگیا۔ بعض مسلمانان ریاست نے میرے ساتھ ہجرت کرنے کا تہیہ تیز کیا اور چشم زدن میں اس واقعہ نے اسلامی جرائد واخبارات کے کانوں تک پہنچ کر ان کے کالم نیز بھر دئیے اور اسلامی اخبارات ومذہبی صحائف نے میری حمایت میں حصہ لے کر مختلف مضامین کو ریاست کے خلاف شائع کر دیا۔سرحد کے مختلف مقامات میں جلسوں کا انعقاد
صوبہ سرحد اور نیز پنجاب کے بعض مقامات میں میری حمایت کے متعلق ریاست