افسوس کہ محمد اورنگزیب خان صاحب نے مرزائیوں کے تاثرات سے متأثر ہوکر ان کا ساتھ دینے میں کوئی سستی روا نہیں رکھی۔
میری ذاتیات کے خلاف مرزائیوں کی آخری جنگ
میں نے اپنی تبلیغی مساعی کو فتنہ مرزائیت کے استیصال کے لئے انتہائی مراحل تک پہنچا دیا تھا اور کسی صورت سے مخالفین کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ تابعد یکہ ہمارے مابین اس مذہبی مخالفت کی رفتار نے عرصہ چھ سات سال طول کھینچ لیا تھا اور اس عرصہ میں بعض جزی واقعات فی مابین اس قسم کے پیش آیا کرتے۔ جن کے لحاظ سے غلبہ کا پلہ اکثر میری ہی جانب ہوا کرتا تھا اور گاہے ان کی جانب بھی، لیکن اس مرحلہ تک پہنچ کر مرزائیوں کو اپنے مستقبل کا بہت کچھ فکر لاحق حاصل ہوا۔ جو اس امر میں غور اور خوض کرنے کے لئے انہوں نے ایک خاص اجلاس بمقام دربند منعقد کیا اور تمام مشاہیر ومرزائی اکابر نے شمولیت اختیار کی۔ جو میرے اقتدار کے خلاف مختلف تجاویز پر بحث اور تمحیص ہوئی۔ آخرکار اس سلسلہ کی پہلی کڑی جو نواب صاحب کے آنکھوں کے سامنے پیش کی گئی تھی۔ وہ یہ بتلایا گیا کہ اس مذہبی مخالفت کے پیچھے جناب (موجودہ فرمانروائے ریاست) محمد فرید خان کا ہاتھ متحرک ہے اور مرزائیت کے خلاف جس قدر بھی آواز بلند کی جاتی ہے۔ وہ انہی کے زیر اثر ہے۔
فتنہ مرزائیت کے خلاف تبلیغی مساعی پر پابندیاں
مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۳۲ء کو نواب صاحب والئی ریاست نے مجھے طلب کر کے تبادلہ خیالات کیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔
نواب صاحب: یہ بات پایہ یقین کو پہنچ چکی ہے کہ آپ کی یہ مذہبی اشتعال انگیزیاں کسی مخفی ہاتھ کے زیر اثر ہورہی ہیں۔
میں: یہ مرزائیوں کی تنگ نظری اور مغالطہ دہی کا ایک واضح اور بیّن نتیجہ ہے کہ میری تبلیغی مساعی اور میرے ایثار وقربانیوں کو کسی ذاتی اغراض اور عصبیت پر محمول کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ میرے ایماندارانہ جذبات کے نتائج اور عواقب ہیں۔ کسی خود غرض شخص کے زیر اثر میری یہ مذہبی تبلیغ ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ میں اس بات کو جرم عظیم سمجھتا ہوں کہ خدائی خدمات کے صلہ میں کسی دنیاوی متاع یا کہ کسی اور کی خوشنودی کو اختیار کروں۔