کے غلط ڈھکوسلے ہیں اور مؤخر الذکر معاملہ میں اگر وہ ایسا کریں گے تو اس کا اثر ریاست پر پڑے گا۔ یا کسی غیر پر۔
نواب صاحب: ہاں ضرور ریاست پر پڑے گا۔ میں: یہ کس قدر خلاف از عقل ہے کہ ایک طرف وہ اپنے آپ کو ریاست کی جانشینی کا مستحق سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف ریاست کے وقار اور اقتدار کے مٹانے کی کوشش کریں گے۔
نواب صاحب: ہاں ٹھیک۔
میں: میں حیران ہوں کہ مخالفین اس قدر بیجا الزامات کو ان کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ مگر آپ نے حاکم ہونے کی حیثیت سے کبھی بالمشافہ تدارک نہیں فرمایا ہے۔
نواب صاحب: تدارک کی ضرورت نہیں ہے۔
میں: حق اور باطل میں امتیاز کس طرح ہوگا۔ آپ حاکم الوقت ہیں۔ ایسے الزامات سے اغماض کرنا حکومتی اصول کے خلاف ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ ثالثانہ اور منصفانہ تدارک فرما کر اصلاح کی جائے۔
نواب صاحب: بہتر ہے۔ آپ محمد فرید اور اورنگزیب دونوں کو ظہر کی نماز کے بعد ساتھ لائیں۔ چنانچہ میں نے قبل از ظہر ہر ایک سے مصلحانہ تبادلہ خیالات علیحدہ علیحدہ کر کے نماز کے بعد دونوں کو جناب نواب صاحب کی خدمت میں حاضر کیا اور یہ بہتر سمجھا گیا کہ باقی چند ایک بااقتدار اشخاص کا موجود ہونا نیز ضروری ہے۔ جو قاضی صاحبان شیرگڑھ مکھیان اور خان صاحب محمد اسماعیل خان برادر نواب صاحب کو نیز شریک مجلس کیاگیا۔ اگرچہ دونوں بھائیوں کے درمیان یکے بعد دیگر کچھ ایسی باتیں ہوئیں۔ جو ایک دیگر کے خلاف تھیں اور نواب صاحب نے نیز حاکمانہ حیثیت سے دونوں کو یکے بعد دیگر مخاطب کرتے ہوئے عتاب فرمایا۔ مگر آخر کار اس خادم اسلام کی تلقین پر دونوں بھائیوں نے باہم مصالحت کر کے آپس میں معانقہ کیا اور نواب صاحب نے نیز اپنی رضامندی کا اظہار فرمایا اور حلفی وعدہ کے ساتھ باہم اتفاق اور اتحاد رکھنے کا تہیہ کیاگیا۔ اگرچہ کافی عرصہ تک باہمی اتفاق کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن رفتہ رفتہ مرزائیوں کے زیر اثر پھر اسی اختلاف اور شقاق کے منحوس قدم نے آگے بڑھ کر مرزائیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ اگرچہ نواب صاحب کے فرزند رشید جناب نواب محمد فرید خان صاحب نے اپنے استقلال مذہبی کو ہاتھ سے نہیں دیا۔ مگر