نقاب کرنے کے واسطے طویل وقت کی ضرورت ہے اور یہ اس لئے کیا کہ شاید وہ باپ کی جانب سے معتوب اور مرعوب ہوکر اپنی افتادگی کے زیر اثر ہمارا ساتھ دے دیں۔ پس اگرچہ رفتہ رفتہ ان کی ذاتیات پر چاروں طرف سے یورش ہونے لگی۔ مگر انہوں نے پامردی اور استقلال کو ہاتھ سے نہیں دیا۔ ادھر جب اس خادم اسلام نے اس بڑھتی ہوئی مخالفت کو دیکھ کر یہ ضروری سمجھا کہ اس اختلاف کی دیوار کو جس نے باپ بیٹے کے درمیان میں بے وجہ حائل ہوکر خطرناک صورت اختیار کر لی ہے اور مستقبل کے لئے ان کے دینی دنیاوی مشکلات کا باعث ہے۔ جہاں تک ہو سکے منہدم کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاکہ مرزائی طبقہ اس مرحلہ میں بھی نامراد رہ جائے۔ چونکہ خدائے تعالیٰ کے فضل سے میرے اور نواب صاحب کے درمیان میں وہ خوشگوار تعلقات پیدا ہوچکے تھے۔ جن کو برادرانہ تعلقات کے درجہ پر زیادہ تفوق حاصل تھا۔ لہٰذا میں نے بمقام ڈوگہ ذیل کی گفت وشنید ہونے پر کامیابی حاصل کر لی تھی۔
میں: میں اپنے تجربہ کے لحاظ سے اس بات کے کہنے پر جرأت کر سکتا ہوں کہ ریاست کی تمام تر قوتیں عنقریب اس خانگی افتراق اور اختلاف کی نذر ہو جاویں گی۔ خود غرض لوگوں کے ہاتھوں اس اختلاف کی خلیج اور بھی وسیع ہونے والی نظر آرہی ہے۔ خدانخواستہ اس سے وہ تلاطم پیدا ہو جائے گا۔ جس سے ریاست کو بہت کچھ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پس دور حاضرہ کی سیاست کے پیش نظر قرین مصلحت یہ امر ہے کہ جلد تر اس اختلاف کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔
نواب صاحب: اس اختلاف کو مٹانا محالات سے نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ کیونکہ ایک تو محمد فرید میرے اوقات حیات میں جانشین ہونے کا متمنی ہے۔ دوئم اس نے میری ذاتیات کے خلاف بہت کچھ کدوکاش شروع کی ہوئی ہے۔
میں: کیا وہ اوّل الذکر معاملہ میں کسی حکومتی آئین کے ماتحت کامیابی حاصل کر سکتا ہے یا نہ؟
نواب صاحب: ہرگز نہیں۔ کیونکہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ وہ میری زندگی میں میرا جانشین ہوسکے۔
میں: تو پھر یہ امر قرین قیاس نہیں ہے کہ وہ باوجود اس قدر فراست اور معاملہ فہمی رکھنے کے اس قسم لاحاصل امر کے لئے تضیع اوقات کریں گے۔ یہ سب کچھ مرزائیوں