السلام بہن بھائی کا نکاح اس میں کیا کرتے تھے۔ مگر موسوی شریعت کے رو سے اس نکاح کو مطلقاً حرام کر دیا گیا۔ موسوی شریعت میں ختنہ کرنا ثابت ہے۔ مگر عیسائی اس سے منکر ہیں۔ معلوم ہوا کہ سابقہ شرائع میں فسخ فی الاحکام ہوتا چلا آیا ہے۔ یہ کچھ محمدی شریعت کے ساتھ مختص نہیں ہے اور وہ لوگ جو یہ اعتراف پیش کرتے ہیں کہ کسی حکم کا منسوخ کرنا پشیمانی اور عیب کی بات ہے اور ندامت خدائے تعالیٰ کے شان کے ساتھ شایان نہیں ہے تو یہ ان کی حماقت ہے۔ کیونکہ اس منسوخ کردہ حکم کی میعاد واجب تعالیٰ کے نزدیک وہی مقرر تھی جس کے ختم ہونے پر وہ میعادی حکم موقوف کر دیا گیا۔ پس یہ کوئی ندامت نہیں ہے۔ بلکہ عین حکمت ہے۔ اگر عقل کی دوربین سے عالم کون وفساد میں دیکھا جائے تو واضح ہو گا کہ جس طرح ہر لمحہ وہرآن میں طرح طرح کے حوادثات یکے بعد دیگر پیش آیا کرتے ہیں۔ کبھی صحت ہے، کبھی مرض ہے۔ کبھی فقر اور کبھی تونگری ہے۔ یہ سب کچھ اس قادر مختار کی حکیمانہ کاروائی پر دال ہیں۔ جیسا کہ ان باتوں سے عیب اور پشیمانی ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی طرح نسخ فے الاحکام بھی اس کا حکیمانہ ایک فعل ہے۔ جیسا کہ کوئی حاذق حکیم مریض کے حالات پر غور کرتا ہوا۔ مرض کی تبدیلی سے نسخہ میں نیز تبدیلی کردیتا ہے۔ حالانکہ آپ لوگ اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ بلکہ اس حکیم کو اس سے تجربہ کار سمجھتے ہیں۔ فقط!
دستخط: خادم اسلام عاصی محمد اسحاق!
نواب صاحب کے فرزند اکبر اور فرزند صغیر پر
اثر ڈالنے کے متعلق مرزائیوں کی ناپاک کوشش جب مرزائیوں کی مایوسی کا ہجوم زیادہ ہوگیا تو اپنی کامیابی کے لئے انہوں نے ایک دوسرا پہلو اختیار کر لیا تھا۔ یعنی نواب صاحب کے بیٹوں میں سے ہر ایک کو جداگانہ ولی عہدی کا طمع دے کرمسرت آمیز اطمینان دلایا اور اس ضمن میں ان کی یہ کوشش تھی کہ ان کو مرزائیت کے دائرہ اثر میں لایا جائے۔ لیکن آسمانی تائید سے نواب صاحب کے فرزند رشید جناب محمد فرید خان صاحب (موجودہ والئی ریاست صاحب بہادر) نے اپنے عقل راشد سے کام لے کر اس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ آخر کار مرزائیوں نے اس کے متأثر ہونے کو مشکل ہی نہیں بلکہ محالات سے سمجھ کر اپنی پالیسی کی تصویر کا رخ بدل دیا۔ یعنی باپ بیٹے کے درمیان میں مخاصمانہ اور کشیدہ حالات کے پیدا کرنے کے لئے اپنی طاغوتی قوت کے استعمال سے کام لیا۔ جس کو بے