پس جب وہ ایک طرف مدعی نبوت کو کافر کہتے ہیں اور دوسرے طرف خود مدعی نبوت ہیں۔ تو اندریں صورت آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ مرزاقادیانی کا ایمان کس پایہ کا ہے۔
کیا مرزاقادیانی نے (ست بچن ص۳، خزائن ج۱۰ ص۱۴۲،۱۴۳، ج۲۱، ص۲۷۵) میں یہ نہیں فرمایا کہ جھوٹے شخص کی کلام میں ضرور تناقض ہوتا ہے۔
اور (ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵) میں نیز یہ مذکور بالا تصریح نہیں کی ہے اور (ست بچن ص۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۲) میں وہ یہ لکھتے ہیں کہ: ’’مختلف دعاوی کے قلب اور زبان سے وہی باتیں پیدا ہوں گی جو پاگلوں مجنونوں سے پیدا ہوتی ہیں۔‘‘ حالانکہ مرزاقادیانی سے ایسی مختلف اور متناقض باتیں ثابت ہوئی ہیں جن سے کوئی مرزائی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے۔
دیکھو (اخبار بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷) میں لکھتے ہیں کہ: ’’ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘
اور پھر (حمامۃ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷) میں لکھتے ہیں کہ: ’’خدا کی پناہ کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں نبوت کا مدعی بنتا۔‘‘
اور (حاشیہ تجلیات الٰہیہ ص۹، خزائن ج۲۰ ص۴۰۱) جو کہ اوپر گذر چکا ہے میں لکھتے ہیں کہ: ’’آنحضرتﷺ کے بعد کسی پر لفظ نبی کا اطلاق جائز نہیں ہے۔‘‘
اور پھر نبوت کا دعویٰ بھی کیا غرض۔ مندرجہ بالا سوالات کو میں نے تحریر کر کے دے دیا اور چونکہ اس مجلس میں جناب اکبر شاہ میاں وغیرہ بعض کاکا خیلاں صاحبان نیز موجود تھے۔ جو ان کی وساطت سے یہ عہد نامہ جانبین سے لیا گیا کہ جو شخص ہار جائے تو پانچ صدر روپیہ دے گا۔ چنانچہ تاریخ مقررہ میں بمقام دربند ہجوم کی کثرت تھی کہ مباحثہ کا وسیع احاطہ اہل اسلام سے کھچا کھچ بھر گیا تھا۔
عجب خان صاحب کی ناکامی اور بھاگڑ
گو کہ عجب خان صاحب کتمان حق اور تلبیس باطل کے لئے بہت کچھ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں کو مارتے رہے۔ مگر بفض خدا تائید آسمانی سے ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور خود مرزاقادیانی کے حوالہ جات اور تصنیفات کے معائنہ سے ان کو خاموش ہونا پڑا۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا