پیچیدہ ہو چکی ہے۔ لیکن اگر انصاف کی عینک اور غور وتأمل کی دور بین سے دیکھا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ میری تبلیغی مساعی محض صداقت اور جوش مذہب کا ایک نتیجہ ہے۔ میرے اس متواتر تبلیغ اور پیہم اصلاحات مذہبی کے پیچھے کسی کا سیاسی ہاتھ متحرک نہیں ہے۔ بلکہ میری اپنی ہی ایماندارانہ سیاست میرے لئے کافی ہے۔ پس یہ محض مرزائیوں کا ایک وہمی قضیہ اور قیاس بازی ہے۔ ورنہ جس سال میں مذہبی خلاف کا آغاز ہوا اور مخالفت کی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت سید عبدالجبار شاہ صاحب اور محمد فرید خاں صاحب (موجودہ والئے صاحب ریاست) کا آپس میں انتہائی اتفاق اور اتحاد تھا۔ پس اس وقت کس کی تحریک تھی بلکہ مرزائیت کے خلاف ابتدائی جلسہ میں جب کہ مسلمانان ریاست وغیرہ مذہبی ایثار اور اسلامی قربانیوں کے لئے آمادہ ہوکر برسر پیکار ہوچکے تھے۔ اس وقت اس فتنہ کی روک تھام کے لئے جس قدر جناب ممدوح نے میرے ساتھ تبادلۂ خیالات کر کے اس بڑھتی ہوئی آگ فساد کے روکنے میں جو کوشش کی تھی۔ وہ ایک واضح دلیل ہے کہ ان کی اس معاملہ میں کوئی تحریک نہیں ہے۔
اگر بفرض محال وہی محرک مان لئے جاویں تو پھر فتنۂ مرزائیت کی اس رفتار کے برخلاف جو ریاست کی ملکی وملی ترقی کے حق میں زہر ہلاہل کا حکم رکھتی تھی۔ ان کی یہ تحریک قابل تبریک ہے۔ یا لائق نفرین۔
نواب صاحب: ہاں بیشک قابل تحسین وتبریک ہے۔ مجھے آپ کی صداقت اور آپ کے ایماندارانہ جذبات اور ملکی خیرخواہی پر کمال وثوق واعتماد ہے واقعی یہ مرزائیوں کی غلط بیانیاں ہیں۔ آپ بلاروک ٹوک اپنا مذہبی کام بااختیار کرتے رہیں۔ غرض لاہوری وفد کو بے نیل ومرام واپس رخصت کر دیا گیا۔
مرزائی عجب خان زہدہ مشیرمال ریاست انب کے ساتھ میرا مذہبی مباحثہ
چونکہ وزیراعظم صاحب ریاست وغیرہ مرزائی کارکنان کا تمام ریاست پر مرزائی سیاست کا تسلط جمانا اصل مقصود تھا۔ اس لئے انہوں نے ریاست کے اعلیٰ عہدے حاصل کر لئے تھے۔ جو اس سلسلہ میں عجب خاں ساکن زہدہ کو جو کہ مرزائیوں کا قائداعظم تھا۔ ریاست کے مشیرمالی کے لئے مدعو کیاگیا۔ چنانچہ اس کے دوران حکومت میں اس کے ساتھ میری ملاقات کا ایک دن اتفاق ہوا۔ دوران گفتگو میں خان صاحب موصوف نے کہا کہ کاش علماء مذہب شغل تکفیر سے باز آجائیں۔ بجواب میں نے کہا کہ کاش کم فہم مرزائی اپنے خانہ ساز نبی سے باز آجائیں۔