دلالت نہیں کرتی ہے۔ جیسا کہ مرزائیوں نے سمجھا ہے۔ بلکہ آیت قرآنی کا صحیح معنی یہ ہے کہ کسی اس غیر مذہب شخص پر دین اسلام میں داخل ہونے کے لئے جبر نہ کیا جاوے۔ جو کہ پیدائشی کافر ہو۔ کیونکہ اسلام ایک واضح اور کھلی چیز ہے۔ اس کے دلائل اور براہین نہایت ہی روشن ہیں۔ وہ اس امر کا محتاج نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر کسی کو مجبور کیا جاوے۔ پس آیت مذکور سے یہ مراد لینا کہ جو شخص مسلمان مرتد ہوجاوے۔ اس پر جبر نہ کیا جاوے۔ جیسا کہ مرزائیوں کا خیالی ڈھکوسلہ ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ مرتد شخص یعنی ہر وہ مسلمان جس نے اپنے دین اسلام کو بدل دیا۔ اس کو شریعت مقدسہ نے بلاکسی نقص منکر کے یہ حکم دیا ہے کہ اس کو قتل کر دیا جاوے۔ چنانچہ بخاری شریف میں اس مضمون کی حدیث موجود ہے۔
نواب صاحب: جس قدر نفرت اور بائیکاٹ کرنے کا حکم آپ مرزائیوں سے دیا کرتے ہیں۔ ویسا ہندو مذہب والے شخص سے نہیں دیتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہندو جو کہ مشرک ہے۔ اس نے زیادہ بائیکاٹ کرائی جاوے۔
میں: اس کی وجہ یہ ہے کہ مرزائی لوگوں نے اسلامی لباس پہن کر اپنی مکاریوں سے جس قدر مسلمانوں کو دھوکہ میں ڈال کر احکام اسلام کو ٹھکرا دیا ہے۔ اس کی نظیر بہت کم ملے گی۔ اسلام کے استیصال میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ جب سادہ لوگ مسلمان ان کو اپنا ہم مذہب سمجھ کر ان کی پالیسی سے محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا علماء وقت کا اوّلین فرض ہے کہ عام مسلمانوں کو ان سے اختلاط کرنے کے متعلق محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ انسانی جسم کا جب کوئی حصہ خراب ہوجاتا ہے اور باقی حصص کو اس سے نقصان پہنچتا ہے تو اس خراب شدہ حصہ کو قطع کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب مرزائیت کے فتنہ سے مذہبی امن عامہ خطرہ میں ہے۔ تو لازم ہوا کہ اس فتنہ سے عوام مسلمانوں کو ہر رنگ اور ہر طریق سے محفوظ رکھا جائے اور ہندو لوگ جو کہ اپنے آپ کو ہندو ہی کہلاتے ہیں۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتے ہیں۔ اس لئے ان سے اختلاط رکھنا چنداں خطرناک نہیں ہے۔
نواب صاحب: مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ ریاست میں جو کہ عرصہ سے مرزائیت کے خلاف جنگ جاری ہے۔ اس کا محرک محمد فرید خاں (یعنی موجودہ والئے ریاست صاحب) ہیں۔ کیونکہ وہ اس مذہبی آڑ میں عبدالجبار شاہ وغیرہ کو دبانا چاہتے ہیں۔
میں: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ دور ریاست میں صورت حالات کچھ زیادہ