مرزائیوں کی فریب کاریوں کا وہ طلسم از خود ٹوٹ گیا۔ رہائی پانے کے بعد وہ خود ساختہ دیوانہ میرے پاس حاضر ہوا اور اپنی بے اعتدالیوں کی معافی کا خواستگار ہوا۔ جو میں نے اس کو بغیر کسی زجرو توبیخ کے معافی دے دی اور ’’واﷲ یحب المحسنین‘‘ کی تعمیل میں اس کو کچھ تحائف یعنی اپنی عینک وغیرہ عطاء کئے اور اس سلسلہ میں برادرم قاضی عبدالغنی صاحب نے جو کہ جنگ مرزائیت کے دوران میں میرا بازوئے راست تھا۔ اس نے انتقام لینے کے لئے متعدد بار آمادگی کااظہار کیا۔ لیکن میں نے اس کے اس اقدام کو پیغمبرانہ اخلاق کے خلاف سمجھ کر اس کو منع کر دیا تھا۔ مزید برآں میں نے اپنی کشادہ دلی سے کام لیتے ہوئے اس کسمپرس فرضی دیوانہ کی حالت پر ترحم کھا کر اس کو اپنے دفتر میں منشیانہ حیثیت سے ملازم نیز رکھ لیا۔
ریاست میں مذہبی آزادی حاصل کرنے کے لئے لاہوری وفد
لاہوری مرزائیوں کا ایک وفد جو کہ ڈاکٹر مرزا محمد یعقوب بیگ وغیرہ پر مشتمل تھا۔ جناب نواب صاحب کی خدمت میں پیش ہوا۔ جو ان کی استدعاء آرزوں کے زیراثر نواب صاحب نے مجھ سے تبادلہ خیالات کیا اور ذیل کے سوالات پر گفتگو ہوئی۔
نواب صاحب: کیا قران مقدس دینی مسائل کے لئے کافی نہیں ہے۔ جو دیگر کتب سے مدد لی جاتی ہے۔
میں: اس میں شک نہیں ہے کہ اسلام کا اصلی قانون قرآن مقدس ہی ہوسکتا ہے۔ مگر جب قران حکیم میں مسائل جزئیہ کا مکمل احاطہ نہیں ہے۔ اس لئے حدیث اور اجماع اور قیاس سے مدد لی جاتی ہے۔
نواب صاحب: قرآن میں یہ حکم موجود نہیں ہے کہ دین حق میں جبرواکراہ جائز نہیں۔
میں: واقعی قرآن میں یہ آیت موجود ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ دین کے قبول کرنے میں کسی پر جبر نہ کیا جاوے۔
نواب صاحب: یہ وہ لوگ جو مرزائی ہو جاتے ہیں ان پر کیوں جبر کیا جاتا ہے۔ قرآن کے اس حکم سے تو مذہب کی آزادی ثابت ہے۔
میں: ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ جو کہ قرآنی آیت ہے وہ مذہب کی آزادی پر