ریاستی مرزائیت کے خلاف سرحدی جلسوں کا انعقاد
نیز صوبہ سرحد میں اکثر مقامات پر کارکنان اسلام نے اپنے مذہبی جذبات سے کام لیتے ہوئے مرزائیت ریاست کے خلاف وقتاً فوقتاً مجالس کے انعقاد میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھا۔ سو اگرچہ مرزائی طبقہ نے ان کے اس عملی اقدام میں میرا ہاتھ سمجھ کر نواب صاحب کے دل پر میرے برخلاف بہت کچھ اثر ڈالنے کی کوششیں کیں۔ مگر بے سود۔
مرزائیوں کی انتہائی بے اعتدالیوں کے نتائج
اور میرے استقلال واولو العزمی کے ثمرات
ریاستی مرزائیوں نے اپنی اخلاقی کمزوریوں کے زیر اثر بمصداق ’’کل اناء یترشح بمافیہ‘‘ میری توہین کے لئے اپنی ناکام تجاویزوں میں سے ایک یہ تجویز نیز پاس کی تھی۔ یعنی انہوں نے خلیل الرحمان نام ایک شخص کو فرضی دیوانہ اور خودساختہ پاگل مشہور کر کے میرے خلاف سب وشتم کے لئے اس کو آمادہ کرادیا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی فرضی دیوانہ پنی کی آڑ لے کر مختلف مجالس ومحافل میں اپنی اس ڈیوٹی کو باقاعدہ انجام دیا۔ اگرچہ میں حکومت قضا اور سیاست مذہبی کے اقتدار کے ماتحت اسلام کے قانون تعزیرات کی رو سے اس سے انتقام لے سکتا تھا۔ لیکن ’’والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس‘‘ کے مدنظر میں نے صبرواستقلال ملاطفت ورفق کو ہاتھ سے نہیں دیا اور نہ ان کے اس انسانیت سوز سنگ گراں نے مجھے حق بیانی سے دبا سکا اور میرے آئینہ دل میں ان کی اس توہین آمیز تحریک نے جوش انتقام کا عکس کبھی نہ ڈالا۔ میں اپنے شریفانہ انداز اور مہذبانہ روش کے زیراثر اسلام کے فضائل ومحاسن کی توسیع اور فتنۂ مرزائیت کے نقائص اور عیوب کی نشرواشاعت کے لئے بغیر کسی تشدد کی رفاقت کے محض صلح وامن کے سایہ میں اپنی آواز بلند کرتا چلا جارہا تھا۔ کیونکہ دین حق کی خاطر اس قسم کے مصائب وآلام کی تلخی کو خندہ جبینی وکشادہ دلی کے ساتھ گوارا کرنا مؤمن کے لئے آسان بلکہ باعث صدہا مسرت ہوا کرتا ہے۔ حوصلہ شکن وصبر آزما شدائد میں استقلال رکھنا پیغمبرانہ اخلاق کا مظہر ہے۔ توکل علیٰ اﷲ کی شان بہت بلند تر ہے۔ چنانچہ قلیل عرصہ میں کسی خاص وجہ سے انہی اعدائے اسلام کے ذریعہ خدائے تعالیٰ کے منتقم اور معذب ہاتھ نے اس خود ساختہ دیوانہ کو جیل خانہ کی تاریک کوٹھریوں کا سیر کرایا اور