مراسلہ بالا کا میرے جانب سے جوابی مکتوب
بخدمت جناب نواب صاحب بہادر زادہ الطافکم!
السلام علیکم! گرامی نامہ مطالعہ کیاگیا۔ پس میں انتہائی افسوس سے عرض کروں گا کہ قاضی صاحب موصوف کی یہ سرعت آمیز کوشش محض اس کی خود غرضی پر مبنی ہے۔ اس کے پیچھے ایک پراسرار اور بااقتدار ہاتھ کام کر رہا ہے۔ یہ بالکل ایک نمایاں حقیقت ہے کہ مرزائی طبقہ کو میرے پیش کردہ تجاویز سے انتہائی مخالفت ہے۔ کیونکہ یہ وہ تجاویز ہیں جو سراسر ریاست کی مذہبی اور ملکی ترقی وعروج کے لئے سرچشمہ ہونے کا حکم رکھتے ہیں۔ مگر وہ جب اپنی مخالفت میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے قاضی صاحب موصوف کو ہم خیال کر کے میرے اس مذہبی سلسلۂ عمل اور میرے اس تبلیغی پہلو کے برخلاف ان کو برپا کر دیا ہے۔ میں صداقت سے عرض کروں گا کہ میرا مرزائیوں سے ذاتی کوئی عناد نہیں ہے۔ میں محض اسلامی ننگ وناموس کے لئے سب کچھ کر رہا ہوں۔ اس بارہ میں ہر قسم کے ایثار اور قربانیوں کے لئے میں تیار ہوں۔ میں قاضی صاحب کا بہت ممنون رہوں گا کہ اگر وہ اسلام کے لئے کوئی عملی پہلو اختیار کریں جو اس صورت میں ان کو اپنا بازو راست سمجھوں گا۔ لیکن امید نہیں ہے کہ وہ صداقت سے کام کریں گے۔ بلکہ خوف ہے کہ اس سے مرزائیت کو اور بھی تقویب مل جائے گی۔ فقط: مورخہ ۶؍اگست ۱۹۳۲ء
دستخط: خادم اسلام عاصی محمد اسحاق قاضی القضاۃ ریاست انب! غرض اس خادم اسلام نے اشاعت اسلام کا کام ان کے سپرد کر دیا۔ مگر قاضی صاحب موصوف نے قلیل عرصہ میں وہ مبلغین جن کو میں نے مرزائیت کے خلاف تبلیغی سلسلہ میں منتخب اور متعین کیا تھا۔ بعض نامعقول عذرات کو پیش کر کے ان کی معزولی کی رپورٹیں پیش کر دیں۔ لیکن وہ اپنی اس کوشش میں ایک حد تک کامیاب نہ ہوسکے اور نہ میں نے مرزائیت کے دیوہیکل سے مرعوب ہوکر قول حق سے خاموشی اختیار کی۔ کیونکہ شدائد کے مہیب دیو سے وہی لوگ مخوف اور مرعوب ہوا کرتے ہیں جو اپنے نفع وخسران کی باگ کو خالق اکبر کے سوا کسی مخلوق کے ہاتھ میں دیکھتے ہیں۔ بیت
حسد چومے بری اے سست نظم بر حافظ
قبول خاطر ولطف وسخن خدا داد است