فتنہ مرزائیت کے استیصال کے لئے سرتوڑ کوشش شروع ہوگئی تو ادھر ریاستی مرزائیوں نے میرے اس تجویزی رنگ کو ریاست کے امن عامہ کے برخلاف بتلا کر نواب صاحب کے دل میں مختلف شکوک اور شبہات پیدا کر دئیے اور ان کے دماغ میں یہ بات راسخ کر دی گئی کہ اگر علمائے ریاست کا یہ مذہبی اقتدار بحال رہا تو ریاستی مسلمانوں کے مذہبی جذبات مشتعل ہوکر امن عامہ کے خلاف بہت فسادات پیدا کر دیں گے۔
قاضی عبداﷲ صاحب آف کھمیان کی مرزائیوں کے ساتھ
میری اس تجویزی کارنامہ اور اقدام عمل کے خلاف موافقت
اگرچہ قاضی صاحب موصوف جو پہلے میرے نقش قدم پر چل کر میرا ساتھ دیا کرتے تھے اورمرزائیت کے خلاف ہونے میں ایک حد تک انہوں نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ مگر مرزائی اکابر کے زیراثر میرے اس تبلیغی انتظام کے سلسلہ کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرنے کے لئے اپنی ناکام سعی سے اس نے کام لیا اور نواب صاحب والئی ریاست کے متاثر کرنے میں انتہائی سعی کی جو اس سلسلہ میں نواب صاحب والئی ریاست نے میرے نام ذیل کا مکتوب لکھا۔
بخدمت جناب قاضی صاحب انب سلامت!
السلام علیکم! آج قاضی عبداﷲ کھمیاں نے بحضور ایں جانب پیش ہوکر آپ کی مرتبہ اور مجوزہ مجریہ ہدایات کے نقول پیش کرکے بحث کی اور کہا کہ بعض معاملات کا اجراء بہتر نہ ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ! پس جہاں تک ایں جانب نے خیال کیا۔ آنجناب پر کام کی بہت کثرت ہے۔ قریباً ساری ریاست کے متعلق شریعت کے فیصلوں کا کاروبار آپ کے سر پر ہے اور تمام مذہبی واسلامی امورات کا انجام دینا بھی آپ کے ذمہ ہے۔ اندرونی، بیرونی استفتاء جات کا کام بھی آں جناب کے سپرد ہے۔ نظربریں اگر اشاعت اسلام کا بار بھی آں جناب پر ڈال دیا جائے تو بہت ہی بے انصافی ہوگی۔ پس ایں جانب نے محض آں جناب سے بوجھ ہلکا کرنے کے خاطر صرف اشاعت اسلام یعنی دوروں کا کام قاضی عبداﷲ صاحب کھمیاں کے سپرد کرنا مناسب خیال کیا ہے کہ وہ آپ صاحب کے مجریہ اور مجوزہ ہدایات کے مطابق اشاعت کا کام کریں۔ مگر وہ کام اس کا نیز آں جناب کے زیر نگرانی رہے گا۔ وہ آں جناب سے بالا بالا کوئی کام نہیں کریں گے۔
فقط مورخہ ۲؍اگست ۱۹۳۲ء
دستخط: میجر نواب صاحب بہادر آف ریاست انب!