محسوس کرتا ہوں۔ جو کچھ حکم آپ نے فیصلہ میں صادر کردیا ہے۔ وہی مجھے منظور ہے۔ ہاں اگر مرزائی لوگ بالادست حکومت میں اس امر کے برخلاف کچھ کرنا چاہیں تو پھر دیکھا جائے گا۔
میں: بالادست حکومت کی بازپرس کا میں ذمہ دار ہوں۔ مذہبی معاملات ریاست میں دخل دینے کے لئے وہ مجاز نہیں ہے۔
جب مرزائی طبقہ کو ہر پہلو اور ہر رنگ سے مایوسی اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو بمصداق ’’اذا یئس الانسان طال لسانہ‘‘ ان کے غیظ اور غضب کی آگ نے اور بھی زیادہ جوش مارا۔ ان کے دلوں پر اضطراب اور فساد کی عام کیفیت مسلط ہوگئی۔ بنا برآں میرے ذاتی وقار اور عزت کے خلاف طرح طرح کے ڈٹ بندیوں اور ریشہ دوانیوں سے کام لے کر مجھے بدنام کرنے کے لئے ناکام کوششوں کے وہ درپے ہوچکے تھے۔ فتنہ مرزائیت کے خلاف جو میں نے اپنی مسلسل تقریروںکا طریقہ جاری کر رکھا تھا۔اس کی رکاوٹ میں انتہائی سعی کی گئی اور باقی جو میرے ذاتیات کے خلاف انہوں نے خوف دہ وسائل کو بہم پہنچادیا تھا۔ وہ بظاہر چونکہ ازبس خطرناک تھے۔ لہٰذا میرے لئے اپنی ذاتی حفاظت کے واسطے قدم اٹھانا بھی لازم ہوگیا تھا۔ رات کو وہ میرے برخلاف مجلس شوریٰ کا انعقاد کر کے صبح کو وہ طرح طرح کی رنگ آمیز فریب کاریوں اور دروغ بافیوں کے زیراثر جناب نواب صاحب کی طبیعت کو متزلزل کرنے کے لئے بے تابانہ کوشش کیا کرتے۔ علاوہ ازیں حکومت عالیہ گورنمنٹ انگریزی کے کانوں تک جو میرے برخلاف غلط بیانیوں کے آواز کے پہنچانے کے لئے ذرائع اختیار کر لئے تھے۔ ان کے مطالعہ سے ہر ایک حساس مؤمن کا دل پاش پاش ہوا جاتا تھا۔ مگر چونکہ ادھر تائید آسمانی میرے شامل حال تھی۔ لہٰذا میں نے نہایت ثبات قدمی اور پامردی وصبر واستقلال سے کام لیتے ہوئے ان کی اذیتوں کو برداشت کرنے میں جرأت کو دکھاتے ہوئے بدستور دین حق کی حمایت اور اپنے رسولﷺ برحق کے ننگ وناموس کے تحفظ میں کسی قسم کی سستی اور غفلت کو روا نہیں رکھا اور فتنۂ مرزائیت کے استیصال کے لئے مہذبانہ شکل میں مختلف پہلو اختیار کر کے اپنی مساعی کو ہاتھ سے نہیں دیا۔ چونکہ آفتاب حقیقت کسی کی غلط بیانیوں کے نقاب میں پوشیدہ نہیں رہ سکتا ہے۔ اس لئے جس بات کو وہ میرے برخلاف اپنی ذاتی خواہشوں کے سانچہ میں ڈال کر اپنی ملمع سازیوں سے حکومت ریاست کو یا کہ حکومت انگریزی کو اس کے متعلق فریب دینا چاہتے تھے۔ اس کی حقیقت خدا کے فضل سے بہت جلد بے نقاب ہو جایا کرتی تھی۔