پر مسلمان ہیں۔ علاوہ ازیں عدالت ہائے گوجرانوالہ، امرتسر، انبالہ، سیالکوٹ، حتیٰ کہ ہائی کورٹ میں بھی صاف طور پر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ احمدی مسلمان ہیں۔ بلکہ مدراس اور سنگ پور کی ہائی کورٹوں میں بھی اسی طرح فیصلے ہوئے ہیں۔ پس میراحمد کے واسطے یہ بہت بڑی مشکل ہے کہ وہ اپنی جائز منکوحہ سے محروم کردیا گیا ہے۔ لہٰذا ہم اپیل کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ منسوخ کردیا جائے اور تمام انجمن کی طرف سے اپیل کی جاتی ہے کہ حضور اپنے روشن دماغ اور انصاف شاہانہ سے کام لے کر اس مقدمہ پر اپنی خاص توجہ مبذول فرماویں۔
آپ کا سید غلام مرتضیٰ، سیکرٹری انجمن احمدیہ لاہور!
نواب صاحب بہادر کی اس بارہ میں میرے ساتھ مشاورت
پس مندرجہ بالا مراسلہ کو نواب صاحب نے پڑھ کر میرے ساتھ تبادلۂ خیالات کیا اور امورات ذیل پر گفتگو ہوئی۔
نواب صاحب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کا فیصلہ تنسیخ نکاح مذہبی فرائض کی اہم ذمہ داریوں کے ماتحت صادر ہوا ہے۔ لیکن جب مرزائیوں کو اس سے اس قدر اضطراب اور بے چینی ہے تو بہتر ہوگا کہ دوبارہ اس مقدمہ میں غور کیا جاوے۔ ورنہ قرآنی دلائل سے ان کی تسکین کی جاوے۔
میں: اگرچہ انتہائی غور اور تأمل مذہبی کے بعد یہ فیصلہ صادر کیاگیا ہے۔ خود غرضی کی جھلک سے یہ فیصلہ بالکل پاک ہے۔ مگر چونکہ حق بات کی باگ بہت ہی کم لوگوں کے ہاتھ میں ہوا کرتی ہے اور شریعت کے مسلمہ اصول کو لوگوں نے اپنی ذاتی خواہشات کے سانچہ میں ڈال دیا ہے۔ اس لئے اغراض پرست طبقہ کو ہزارہا دلائل کے مطالعہ سے بھی تسکین نہیں ہوسکتی ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ مرزائیوں کو جس شخص پر بلحاظ علم وفضل زیادہ تر فخر حاصل ہے۔ اس کو میدان مناظرہ میں حاضر کریں اور جہاں چاہیں وہاں بعد از طے پانے شرائط مناظرہ اور تقرری منصف مسلم الطرفین کے میں بھی بلاعذر حاضر ہو جاؤں گا۔ انشاء اﷲ، ورنہ تو ہم کو اس خدائے لایزال کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کرنا چاہئے۔ جس کا اقتدار اور جلال سب مخلوق پر فائق ہے۔ اس کے احکام کے مقابلہ میں کسی انسان کی دلجوئی اور تسکین کے لئے قدم اٹھانا یا کسی کی تغلیط اور ڈانٹ بتلانے سے کچھ قدر بھی مرعوب ہوجانا بہت تسفل اور بے ہمتی ہے۔
نواب صاحب: مجھے کسی کی دلجوئی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ میں مناظرہ کی ضرورت