نے بھی مرزائیوں کے زیراثر فتنہ مرزائیت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا تھا۔ مگر اس خادم اسلام نے نواب صاحب والئی ریاست سے حکم حاصل کر کے اس کو گرفتار کیا اور سزائے قید بامشقت کا مرتکب کراکر ایک عرصہ تک اس کو جیل انب میں رکھا۔ آخرکار تائب ہونے پر اس کو رہا کردیا گیا۔
جناب والئی ریاست صاحب کا اس بارہ میں تحریری فرمان
جب میراحمد مرزائی کو سن ۱۹۲۷ء میں داخل جیل خانہ کر کے تائب ہونے کے بعد پھر اس کو رہا کیاگیا اور جناب والئی ریاست صاحب کی خدمت میں اس امر کی اطلاع بھیجی گئی تو انہوں نے خاص اپنی قلم سے ذیل کا مکتوب گرامی میرے نام مرسل فرمایا۔بخدمت فیض درجت برادرم جناب قاضی صاحب انب زادہ عناتیکم!
نوازش نامہ جناب شرف صدور فرمودہ از احوال آگاہی شد۔ میراحمد مرزائی چونکہ تائب شدہ بہتر کردند کہ اور ارہائی فرمودند۔ مگر از وضمانت گرفتہ باشند کہ باز مرزائی نشود۔ جناب بالکل تسلی فرمایند کہ اگر باز کسے دیگر مرزائی شود۔ ہمیں سزادادہ باشم۔ وایں جانب برنصیحت جناب ہر وقت قائم است۔ فقط ۱۹۲۷ئ!
دستخط: (جناب والئی ریاست صاحب محمد خانی زمان خان بحروف انگریزی)
میراحمد موصوف کے نکاح کا انفساخ واسترداد
جب میراحمد مذکور کو تائب ہونے کے بعد جیل سے رہا کیاگیا تو اس نے کئی عرصہ تک اگرچہ اسلام اور اسلامیان سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ لیکن پھر ریاستی مرزائیوں کے زیراثر راہ فرار اختیار کر کے بمقام لاہور پہنچ کر مرزامحمد یعقوب بیگ ڈاکٹر کے مطب میں ملازمانہ حیثیت سے اس نے جگہ لی اور پھر اپنی مرزائیت کا اعلان کیا۔ جو اس وجہ سے اس کی عورت کا نکاح جو کہ وہ اپنی مذہب کی پابند تھی اور اپنے باپ کے پاس ریاست میں رہائش رکھتی تھی۔ شرعی احکام کے ماتحت اس خادم اسلام نے فسخ کر دیا اور تفریق اور عدت تفریق کے بعد دوسرے شوہر کے نکاح میں دے دی گئی۔
غلام حیدر مرزائی ساکن ریاست پھلڑہ کے نکاح کی تنسیخ
غلام حیدر مرزائی ولد سلیمان ساکن ریاست پھلڑہ کی عورت جو کہ اسلامی مذہب کے