کئی عرصہ تک مرزائیت کی توسیع واشاعت کے لئے انہوں نے بظاہر دب کر ہاتھ پاؤں مارنے چھوڑ دئیے تھے۔ لیکن اندرونی طور پر اپنی مذہبی سطوت اور جبروت کے بڑھانے کے لئے بدستور مختلف ذرائع کے استعمال کو وہ جاری رکھا کرتے تھے۔ جو اس دوران میں میرے تبلیغی راستہ میں روڑوں کے اٹکانے کے لئے انہوں نے نیز مختلف وسائل پیدا کر دئیے تھے اور طرح طرح کی غلط بیانیوں اور فریب کاریوں سے میرے برخلاف کام لینا شروع کر دیا۔ پس میں نے یہ بہتر خیال کیا کہ اوّلاً والئی ریاست صاحب کے اعتقادیات کے تحفظ اور پاسبانی کے لئے کوئی مؤثر قدم اٹھایا جائے اور وقتاً فوقتاً ان کے اعتقادیات کی نگہبانی کا اہتمام رکھا جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اس خادم اسلام نے جس قدر اپنی حکیمانہ تعلیم اور مواعظت بلیغہ کے لئے جو جو پہلو اختیار کر لئے تھے وہ خدا کے فضل سے ایک حد تک بہت کامیاب ثابت ہوئے۔ میری اس پنج سالہ تبلیغ عامہ اور تعلیم خاصہ نے خدا کے کرم سے وہ حیرت انگیز کارہائے نمایاں ظاہر کر دئیے تھے جن کے ذریعہ فتنۂ مرزائیت اپنے عروج اور ترقی میں بالکل بے نیل مرام رہ گیا اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات میں بہت کچھ اضافہ پیدا ہوگیا تھا۔ نیز اس خادم اسلام کے غیر مختتم سلسلہ تبلیغ اور نصیحت نے والئی ریاست صاحب کے دل اور دماغ پر وہ اثر ڈالا۔ جس سے ان کے مذہبی اعتقادیات نے جو کہ آخری مراحل پر پہنچ چکے تھے۔ ازسر نو استحکام حاصل کر لیا اور ان کو یقین پیدا ہوگیا تھا کہ ریاست میں فتنہ مرزائیت کا موجودہ سیلاب صرف مذہبی نقصان پر دال نہیں ہے۔ بلکہ وہ ریاست کے وقار اور اس کی سیاسیات کے لئے نیز زہر ہلا ہل کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر عصمت اﷲ صاحب کو مرزائیت کی تبلیغ سے ممانعت
چنانچہ میری مواعظت اور تبلیغ کے زیراثر جناب والئی ریاست صاحب نے ڈاکٹر صاحب موصوف کو جو کہ مرزائی جماعت لاہوری کی جانب سے ایک مبلغ ہونے کی حیثیت رکھتا تھا اور محض اسی کام کے لئے ڈاکٹری ملازمت پر انہوں نے ریاست میں بھرتی کرایا تھا اور قلیل عرصہ میں اس نے مرزائیت کے فتنہ کو ریاست میں وہ فروغ دے دیا تھا۔ جس سے اسلام کو انتہائی صدمہ پہنچا۔ طلب فرماکر مرزائیت کی نشرواشاعت سے اس کو جبراً منع کیا اور اس بارہ میں عام تہدیدی اور تخویفی احکام صادر کئے۔
میراحمد مرزائی کا سزائے قید کے بعد تائب ہونا
میراحمد نام مرزائی جو کہ اس وقت خان صاحب آف بھگوائی کا معالج خصوصی تھا۔ اس