دوم… اگر تسلیم بھی کر لیں تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے اپنے انکار کے مقام میں ہو بہو ’’مدعی سست گواہ چست‘‘ کا معاملہ نظر آتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ کیا پھر مسیح علیہ السلام نے غلط جواب دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ بالکل من گھڑت ہے۔
سوم… یہ کہ اگر بالکل اسے تسلیم بھی کر لیں کہ حضرت الیاس علیہ السلام کی نسبت پیش گوئی کی گئی تھی اور وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے آنے سے پوری ہوئی تو پھر بھی یہ ایک نظیر ہی بنے گی۔ نہ کہ علت موجبہ کہ اس کی رو سے یہ قرار دیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی بھی اسی رنگ میں پوری ہو۔
یہ نکتہ اہل علم پر مخفی نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ دوسرا واقعہ خوامخواہ پہلے معاملہ کی مانند ہو۔
انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اصالتاً خود ہی نزول فرمائیںگے۔ نہ کہ ان کا مثیل وبروز۔ کیونکہ مسیح علیہ السلام نے شاگردوں کو فرمایا کہ: ’’میں خود ہی قرب قیامت آؤں گا۔‘‘
اور یہ بھی فرمایا: ’’بہتیرے میرے نام پر آئیں اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہتوں کو گمراہ کریں گے۔‘‘
مسیح علیہ السلام کے ارشاد مذکورہ سے ثابت ہوا کہ جو شخص مسیح علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور گمراہ کرنے والا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ آیت میں ہے۔ ’’بہتیرے میرے نام پر آئیں گے۔‘‘
چنانچہ مسیح کے نام پر بہت آچکے ہیں۔ انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ ان کے نام صرف درج کئے جاتے ہیں۔
۱… فارس بن یحییٰ۔ اس نے مصر میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور بیماروں کو اچھا کرتا تھا اور مردہ بھی طلسمی تدابیر سے زندہ کر کے دکھا دیا تھا۔ (دیکھو کتاب المختار)
۲… ابراہیم بزلہ۔
۳… شیخ محمد خراسانی۔
۴… بہسک نامی ایک شخص نے عیسیٰ بن مریم ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
۵… مسٹر ڈوئی نے بھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔