گوئی کے پورا ہونے سے زیادہ خوش ہوںگے۔ مگر چونکہ اﷲتعالیٰ نے باوجود سبب کے موجود ہونے اس امر کا ذکر نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ نہ الیاس کا نزول خدا کی طرف سے بتلایا گیا تھا اور نہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ان کا مثیل ہونا درست ہے۔
اسی طرح سورت مریم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفت میں فرمایا: ’’لم نجعل لہ من قبل سمیاً (مریم:۷)‘‘ {ہم نے اس پیشتر اس کا نام بنایا ہی نہیں۔}
سمی کے معنی نظیر وشبہ اور مثیل کے بھی ہیں۔ جیسا کہ اسی سورۃ میں آگے آتا ہے۔ ’’ہل تعلم لہ سمیاً (مریم:۶۵)‘‘ {کیا تو کوئی ایسا شخص جانتا ہے جو اﷲ کا نظیر ہو؟}
پس جب یحییٰ علیہ السلام سے پیشتر ان کا ہم نام مثیل بنایا ہی نہیں تو اب مرزاقادیانی ان کو حضرت الیاس کا مثیل کس طرح قرار دیتے ہیں؟ اور کس طرح اس پر اپنے دعویٰ مماثلت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں؟ انجیل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے نہ تو مثیل الیاس ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ وہ تھے۔ بلکہ یہودیوں کے پوچھنے پر اس سے صاف انکار کر دیا۔ جیسا کہ انجیل، یوحنا، باب اوّل میں آیت۱۹ سے ۲۱ تک لکھا ہے کہ:
۱۹… ’’اور یوحنا کی گواہی یہ تھی۔ جب کہ یہودیوں نے یروشلم سے کاہنوں اور لاویوں کو بھیجا ہے کہ اس سے پوچھے تو کون ہے؟‘‘
۲۰… ’’اور اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا۔ بلکہ اقرار کیا کہ مسیح میں ہوں۔‘‘
۲۱… ’’تب انہوں نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ کیا تو الیاس ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں۔ پس آیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب نہیں دیا۔‘‘
اس عبارت سے اور اس سے بعد کی عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام جن کا انجیلی نام یوحنا ہے۔ کاہنوں کے سوال پر اپنے مثیل الیاس ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ پس مرزاقادیانی کا دعویٰ مماثلت بالکل بے بنیاد ہے۔
اگر یہ عذر کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے اعتراض پر حضرت الیاس کی پیش گوئی کے پورا ہونے کی بابت حضرت یحییٰ علیہ السلام کا آنا پیش کیا تھا تو اس کا جواب
اوّل… تو یہ ہے کہ یہ انجیل سے ثابت نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی زبان سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پیش کیا۔