عبدالحنان صاحب مجسٹریٹ دربند، سمندر خان صاحب تھانہ دار ڈوگہ، بازید خان صاحب افسر جنگلات ریاست، ڈاکٹر عصمت اﷲ خان صاحب معالج خصوصی نواب صاحب، سید شاہجہان صاحب وخانو بوجال خاص درباریان نواب صاحب۔ مزید برآں خان صاحب محمد اورنگزیب خان نوابزادہ کے وساطت وشمولیت سے مرزائیوں کو ریاست میں اور بھی طاغوتی قوت اور ہمہ گیری طاقت حاصل ہو چکی تھی۔ لہٰذا اس دور بربریت میں اس خادم اسلام نے جو محض اپنے پیارے نبیؐ (روحی فداہ) اور عزیز اسلام کے ننگ اور ناموس کے تحفظ اور پاسبانی کے لئے جو ایثار اور قربانیاں پیش کی تھیں۔ ان کا تذکرہ نہایت مختصر انداز میں حوالہ قلم کرنے کی کوشش کروں گا۔
اس خادم اسلام کی مرزائیت کے خلاف تبلیغی سرگرمیاں
اور اس فتنہ کے روک تھام کے لئے مجاہدانہ کوششیں
اگر خدائے تعالیٰ کا کرم شامل حال نہ ہوتا اور اس ناگہانی طوفان کی روک تھام کے لئے کوئی مؤثر قدم نہ اٹھایا جاتا تو ریاست اپنے اسلامی دور کے ختم کرنے کے قریب آچکی تھی۔ مگر جب قیومی نصرت نے صبح کی روشنی کو نیز اس تاریکی میں مقدر کیا ہوا تھا تو اس خادم اسلام نے اپنے فرائض کا احساس کرتے ہوئے اس فتنہ کے ابتدائی مرحلہ میں بمقام دربند ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرایا۔ باقی قضیات وعلمائے ریاست کو نیز دعوت دی گئی۔ جلسہ میں تمام مرزائی عقائد اور ان کے اصول سے عوام کو باخبر کیاگیا۔ ریاست میں یہ وہ پہلا جلسہ تھا جو کہ اسلام اور مذہب کو فروغ دینے کے لئے منعقد کیاگیا۔ مسلمانوں میں مذہبی جذبات کا اس درجہ تک فروغ ہوا کہ معمولی سے اشارہ پر فسادات کے واقع ہونے کا اندیشہ تھا۔ تقریروں کے ذریعہ مسلمانوں نے اپنی جانبازی کے دکھانے میں جس سرعت سے کام لیا۔ وہ قابل حیرت تھی۔ چونکہ مجھے اہل ریاست کی اصلاح مطلوب تھی۔ مزید فسادات کو برپا کرنے میں میرا کوئی مدعا نہیں تھا۔ اس لئے میں نے جلد تر موجودہ حالات پر قابو پالیا اور تقریر کے ذریعہ اہل جلسہ کو آگاہ کیاگیا کہ اسلام دنیا کے لئے امن اور صلح کا پیغام لے کر آیا ہے۔ فسادات ملکی سے بچنا ہر ایک مؤمن کا اوّلین فرض ہے۔ اگر ہم صداقت پر ہیں اور یقینا صداقت پر ہیں تو صرف اپنی رواداری اور مہذبانہ طرز سے بہت جلد کامیاب ہو جائیں گے۔ پس جلسہ کے اختتام پر سمندر خان مرزائی نے جو کہ یہ پہلا آدمی تھا جس نے ریاست میں مرزائیت کو اختیار کیا تھا، مرزائیت سے توبہ کی۔ اگرچہ اس جلسہ کے زیر اثر کئی