روڑوں کا اٹکانا حکومتی جرم تھا۔ مزید برآں وزیر ریاست سید عبدالجبار شاہ صاحب نے اپنے سرگرم حواریوں کے ساتھ ریاست کے مظلوم اور مفلوک الحال رعایا کی تالیف القلوبی کے لئے ایک ایسا پہلو اختیار کیا تھا کہ جس کے ذریعہ نواب صاحب ممدوح کی توجہات کو وقتاً فوقتاً ان کے حق میں مبذول کراکر بمصداق ؎
افلاس عناں از کف تقویٰ بستاند
ان کو پابہ زنجیر مرزائیت کرنے کے لئے کوشش کی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں ریاست کے اکثر ارباب بست وکشاد وہی مرزائی عناصر تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنی وجاہت ورعب سے ریاست پر وہ اثر ڈال رکھا تھا کہ جس سے کوئی بھی مرزائیت کے خلاف مؤثر قدم اٹھانہیں سکتا تھا۔ بلکہ ریاست کی موجودہ فضاء اور اس کی پراگندہ حالی کی وہ حالت ہو چکی تھی کہ بعض علمائے وفضلائے ریاست نے ان سے مرعوب ہوکر مرزائیت نوازی کے لئے اقدام کی سعی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ کیونکہ اگر کوئی مولوی مرزائیت کے خلاف کچھ قدر بھی حرکت کرتا تھا تو اس کے خلاف جعلی مقدمات کو برپا کر اکر اس کو گرفتار کر لیا جاتا تھا۔
مولوی عبدالحق صاحب سہیکی کی گرفتاری
چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب ساکن سہیکی علاقہ شاہ کوٹ نے جب جامعہ دربند میں مرزائیت کے خلاف مختصر سی تقریر کی تو عبدالحنان صاحب مجسٹریٹ دربند نے ریاست کے خلاف مضمون نگاری کا الزام اس پر عائد کر کے اس کو گرفتار کر لیا اور ان کو جیل کی سزا دی۔
قاضی عبدالقیوم صاحب ساکن فگوڑا پر مرزائیوں کی حملہ آوری
قضات نواحی میں سے قاضی عبدالقیوم صاحب فگوڑا نے بمقام شاہ کوٹ جو کہ نواب صاحب ممدوح کا گرمائی مقام تھا۔ مرزائیت کے خلاف کچھ قدر جب لب کشائی سے کام لیا تو شاہجہان نام مرزائی نے جو کہ والئی ریاست صاحب کے درباری اراکین میں سے ایک اعلیٰ رکن تھے۔ حملہ آور ہوکر پستول کے ذریعہ سے ان کو دبانا چاہا۔ مگر حاضرین نے صورتحال پر قابو پاکر معاملہ کو فرو کر دیا۔ علیٰ ہذا القیاس باقی جزوی واقعات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ اگر ان کی تفصیل کی جائے تو کتاب بہت ضخیم ہو جائے گی۔ پس اگرچہ ریاست میں مرزائیوں کی تعداد وشمار تو زیادہ تھی۔ مگر وہ اراکین جو قائدانہ اور مبلغانہ حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے ناموں کی فہرست یہ ہے۔ سید عبدالجبار شاہ صاحب وزیر ریاست، سید مبارک شاہ صاحب مجسٹریٹ شیر گڑھ، مولوی