پوچھا جاتا ہے کہ مرزاقادیانی نے کیوں خلاف قرآن دعویٰ نبوت کا کیا ہے تو بڑی سادگی سے جواب دیتے ہیں کہ اس کی مراد تشریعی نبوت نہیں ہے۔ بلکہ ظلی اور بروزی نبوت مراد ہے۔ ’’ہذا قول لا یرضیٰ بہ قائلہ‘‘
آنکھیں اگر ہیں بند تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں قصور کیا ہے بھلا آفتاب کا
کیا وہ مرزاقادیانی کے ان عقائد مذکورہ نمبر۴،۶ کو ملاحظہ نہیں کرتے ہیں۔ وہ اہبت عقائد کے رو سے وہ تشریعی نبوت کے مدعی ہیں۔ کیونکہ قطعی الدلالت ہونا کسی وحی کا اور بمنزلہ قرآن کے اس پر ایمان لانا بجز تشریعی نبوت نہیں ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نبوت دو قسم کی ہے۔ ایک خاص اور ایک عام۔ چنانچہ روح المعانی میں ہے۔
’’اما النبوۃ عامۃ وخاصۃ والتی لا ذوق لہم فیہا ہی الخاصۃ اعنی نبوت التشریع وھی مقام خاص فی الولایۃ واما النبوۃ العامۃ وھی مستمرۃ ساریۃ فی اکابر الرجال غیر منقطعۃ‘‘ یعنی نبوت عام ہے اور خاص اور وہ جس میں اس امت کے لئے ذوق نہیں اور وہ ولایت میں مقام خاص ہے اور نبوت عامہ سووہ اکابر امت میں جاری وساری ہے۔
پس لغوی معنی کے لحاظ سے نبی خبر دینے والے کو کہتے ہیں۔ جو ہر ایک خواب بین یا الہام پانے والے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ مگر یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ اس کا وہ رویا یا الہام صواب وخطا دونوں کا احتمال رکھتا ہے۔ قطعیت اس میں نہیں ہوا کرتی ہے یہ قطعیت کا منصب تو اسی شخص کے لئے خاص ہے جو شریعت لاتا ہے۔ یا شریعت میں کمی بیشی، ترمیم تنسیخ کرنے کا مجاز ہے۔ پس مرزاقادیانی جب اپنے عقائد مذکورہ نمبر۴تا۶ کے رو سے دین حق یعنی شریعت لانے کا اور نیز اس پر بمنزلہ قرآن کے ایمان رکھنے کا مدعی ہے تو اب اس کے اس دعویٰ میں ظلی یا بروزی نبوت کی تاویل کو دخل دینا محض حق پوشی ہے۔ غرض مرزاقادیانی کا کھلم کھلا یہ دعویٰ ہے کہ میں تشریعی نبی ہوں۔ مگر یہ دعویٰ اس کا نصوص قرآن اور احادیث متواترہ سے جو صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے۔ خلاف ہے امت مرحومہ کا اس پر اجماع واتفاق ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبی نہیں۔ دس حدیثوں میں مروی ہے کہ ’’لا نبی بعدی‘‘ یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں اور چھ حدیثیں ایسی مروی ہیں کہ جن میں آپ کو آخری نبی کہاگیا ہے۔ باوجود اس قدر دلائل کے