خصوصاً ایثار اور فدائیت کی ضرورت ہے۔ تبلیغ مذہب واشاعت اسلام کے فرائض کی ذمہ واری کے لئے صبر واستقامت دکھانے کا موقعہ ہے۔ خلق اﷲ کی روحانی اصلاح کی جائے۔ چنانچہ آپ کی توجہات اور ارشادات کے زیر اثر اس وقت تک میری خلافت اور نیابت کا صیغہ منظم طور پر جاری ہے۔ اطراف اور ممالک میں کثیر التعداد لوگ اس خادم اسلام کے حلقہ بیعت میں داخل ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں۔
محکمۂ قضائے شیر گڑھ
شیرگڑھ جو ریاست کے شمالی حصہ میں ایک بستی کا نام ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ گاؤں ایک خاص اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ والئی ریاست صاحب کا گرمائی صدر مقام بھی ہے۔ وہاں ایک الگ محکمہ قضاء مقرر ہے۔ جس کے لئے اخویم جناب قاضی عبداﷲ صاحب عرصہ مزید سے مامور ہیں۔ آپ ایک حق گو، کریم النفس، متجر عالم ہیں۔ معارف قرآن میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس علاقہ کے دیوانی مقدمات کا انفصال ان کے سپرد ہے۔ وہ اپنی تدین اور ورع میں کافی شہرت رکھتے ہیں۔ قضات نواحی سے قاضی حمید اﷲ صاحب اور قاضی عبداﷲ صاحب کا نام قابل ذکر ہے۔ افسوس کہ وہ دونوں پیوند خاک ہو چکے ہیں۔ جو قبلہ والدم کے تلامیذ مشاہیر میں سے ایک ممتاز خصوصیت رکھتے تھے۔ اوّل الذکر صاحب اپنے زمانہ کے علمائے راسخین عاملین سے تھے اور موخر الذکر صاحب ایک جری اور بارسوخ عالم تھے۔
ریاست انب اور تحریک مرزائیت کی ابتداء
کرۂ ارضی میں جب کوئی تحریک کسی سیاسی یا مذہبی عندیہ کو لے کر آگے بڑھتی ہے تو اس کے محرکین اپنی پوری آمادگی کے ساتھ اس تحریک کے اصولوں کے خاطر خونی اور قلبی رشتوں تک کو بھی قربان کرنے میں دریغ نہیں کرتے ہیں۔ قید وبند کے مشکلات کے برداشت کرنے کے لئے بہمہ اوقات آمادہ رہتے ہیں۔ فطری طور پر عالم دنیا میں بھی ہر مزاج، ہر ساخت، ہر رجحان کے لوگ موجود ہوا کرتے ہیں جو اس تصور کے ماتحت تحریک کو جاری رکھا جاتا ہے کہ شاید اس تحریک کی طرف بہت جلد وہ لوگ رجوع کر لیںگے جن کی طبیعت اس تحریک کے مقاصد واصول اپیل کرتے ہیں۔ پس اسی طرح وہ مرزائی تحریک بھی جو اپنے اصول پر دنیا میں تسلط قدیم رکھنے کا داعیہ رکھتی ہے اور بانی تحریک نے اپنے آپ کو اسلامی لباس میں ظاہر کر کے اہل اسلام کو