پس قصیدہ مدحیہ ہذا بمعہ ایک مختصر خط کے جناب ممدوح کی خدمت میں مرسل کیاگیا۔ انہوں نے جو جواب تحریر فرمایا۔ وہ ذیل میں درج ہے۔
جناب پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کا مکتوب گرامی
مکرم جناب قاضی القضاۃ صاحب ریاست انب سلمہ اﷲ وعلیکم السلام ورحمتہ اﷲ! میں آپ کے عقیدت مندانہ جذبات کا ممنون ہوں۔ اگر کبھی آپ نے تشریف لائی تو آپ کے مرام کے انجام میں انشاء اﷲ کوشش کی جاوے گی۔ عموماً یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے ریاست میں مرزائیت کے خلاف علم جہاد بلند کیا ہوا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کو جزائے خیر دیوے اور کامیاب کرے۔ فقط ۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۴ء حسب الارشاد۔ پیر مہر علی شاہ گولڑوی۔
پس اگرچہ مجھے آپ کے حلقہ ذوق میں داخل ہونے کا بے حد اشتیاق تھا۔ مگر جب زمام اختیار اس مالک قدوس کے قبضۂ اقتدار میں ہے۔ لہٰذا صبح مراد کے طلوع ہونے میں کچھ دیر پڑ گئی اور اس دوران میں جناب پیر نذیر احمد صاحب فرزند رشید جناب شمس العارفین پیر صاحب سجادہ نشین موڑہ شریف سے جو کہ علوم عرفانی اور معارف قرآنی کے مشاہیر علماء کی صف اوّل میں جگہ لینے کا رتبہ رکھتے ہیں۔ ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ان کے وساطت سے جناب پیر صاحب موڑہ شریف کے حلقہ ذوق میں داخل ہونے کے لئے مسارعت سے کام لیاگیا اور ایک قصیدہ مدحیہ اولاً ان کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ (قصیدہ تھا ہم نے اسے حذف کر دیا۔ مرتب)
نیابت وخلافت
سن ۱۹۲۵ء کو جناب ممدوح کی روحانی کشش نے میرے انہماک اور کوشش فے المقصود کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مجھے حلقہ ارادت میں جب داخل کر دیا تو ایک طویل ملاقات کے دوران میں آپ نے مجھ سے امتحاناً نفس اور روح وقلب وعقل کے متعلق اور نیز خدائے قدوس سے قرب معنوی، قرب حقیقی، قرب وصفی اور ہر ایک قرب کے منازل کی نسبت استفسار فرمایا اور آیت ’’فمن شرح اﷲ صدرہ لاسلام فہو علیٰ نور من ربہ‘‘ میں ایمانی انوار کے مراتب اور ان کی تفصیل اور قلبی علوم اور ان کی تفصیل وشرح کے متعلق نیز استفسار کیا۔ خدائے تعالیٰ کے فضل وکرم سے میں نے ہر ایک معاملہ کا مشرح طور پر جواب عرض کر دیا تو آپ نے دوسری ملاقات کے دوران میں اپنی توجہات خاص الخاص سے خلافت ونیابت کے لئے مجھے مجبور کر کے مامور فرمایا کہ موجودہ دور عصیان وفساد میں عوام مسلمانوں کے لئے عموماً اور خواص کے لئے