ہیں کہ: ’’جو معنی مرزاقادیانی نے کئے ہیں۔ یہ حضرت محمد مصطفیﷺ سے ثابت ہیں؟ یازمانہ خیرلقرون میں کسی نے لکھا ہے کہ نزول مسیح علیہ السلام سے ان کا مثیل مراد ہے؟‘‘ چلو سلف صالحین سے نہ سہی، متاخرین ائمہ کرام، مفسرین عظام، یا محدثین علام سے ہی سہی کہ نزول مسیح سے ان کی خوبو میں ان کے مثیل کا آنا مراد ہے۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو مدیر پیغام صلح بتاسکتے ہیں کہ جو معنی اور مفہوم امت محمدیہ تیرہ سوسال تک نہیں سمجھ سکی۔ وہ مرزاقادیانی نے کہاں سے سمجھا؟
سر خدا کہ عارف وزاہد بکس نہ گفت
درحیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید
جو معنی امت محمدیہ کے اجماع کے خلاف ہو وہ کہاں تک درست ہوسکتا ہے؟
ناظرین! مرزاقادیانی کا یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ اس طرح کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے آسمان پر جانے اور وہاں سے پھر اترنے کا مسئلہ قرآن وحدیث سے کہیں بھی ثابت نہیں۔ نہ حقیقتاً نہ مثالاً۔ بس مرزاقادیانی اس پر اپنی مماثلت کی بناء نہیں رکھ سکتے۔ قرآن شریف سے یہی ثابت ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی بابت کوئی پیش گوئی نہیں ہے۔ یہ یہودیوں کا من گھڑت عذر تھا اور نیز یہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام کے مثیل نہ تھے۔ کیونکہ حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کی تعریف ان لفظوں میں سنائی تھی۔
’’ان اﷲ یبشرک بیحیٰ مصدقاً بکلمۃ من اﷲ وسیداً وحصوراً ونبیاً من الصالحین (آل عمران:۲۹)‘‘ {(اے زکریا) اﷲ تجھ کو ایسے لڑکے کی بشارت دیتا ہے۔ جس کا یحییٰ نام ہوگا۔ وہ کلمتہ اﷲ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی (جو ان کے بعد ہوئے) تصدیق کرنے والا ہو اور اپنی قوم کا سردار ہوگا اور عورتوں سے علیحدہ رہنے والا اور بہت پاک باز ہوگا اور صالحین انبیاء میں سے ہوگا۔}
پس اگر اﷲتعالیٰ کی طرف سے حضرت الیاس کے نزول کی پیش گوئی ہوئی ہوتی اور اس کا پورا ہونا حضرت یحییٰ علیہ السلام کے آنے سے ہوتا تو یہ امر حضرت زکریا علیہ السلام کو ضرور معلوم ہوتا۔ کیونکہ اس وقت آپ بوجہ نبی ہونے کے کامل العلم تھے اور دوسرے لوگ آپ کے علم کے محتاج تھے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ اﷲتعالیٰ آپ کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت یوں سناتا کہ یہ وہ مولود مسعود ہے جو مدتوں سے منتظر وموعود ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام اپنے بیٹے سے اس پیش