کے آخر میں یہ حکم بصیغہ عموم لاکر کہ اﷲتعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کافر ہیں، ظالم ہیں، فاسق ہیں۔ اہل اسلام کے حکام کو بھی باخبر کر دیا ہے کہ اگر فیصلہ جات میں قرآن کے مطابق عمل درآمد نہ رکھیں گے تو وہ بھی اس حکم کے عموم میں داخل ہیں۔ چنانچہ ابن جریر مفسر نے کثیر التعداد روایات کے رو سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ آیات مسلمانوں کے حق میں بھی وارد ہیں۔ البتہ کفر سے مراد کفردون کفر لیا ہے۔ چونکہ ریا کاری کی جھلک سے پاک رہنا کوہ کندن، کاہ بر آوردن کے مصداق ہے۔ یہ ایک نہایت ہی دشوار گذار اور باخطر گھاٹی ہے جہاں اکثر حکام کے پاؤں کو لغزش ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہر ایک حاکم کا یہ لازمی فرض ہے کہ کمرہ عدالت میں بیٹھنے سے پہلے باوضو ہوکر دوگانہ استخارہ کی نماز ادا کر کے نہایت ہی تضرع اور زاری کے ساتھ اپنی استقامت اور ثبات قدمی کے لئے دعا مانگ کر فصل خصومات کے صیغہ کو شروع کیا کرے۔ چنانچہ اس عاصی پر معاصی کا نیز یہی دستور العمل اکثر رہا کرتا ہے۔ ’’ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشائ‘‘ ریاست میں شرعی فیصلہ جات کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی ہے۔ ہاں البتہ فریق مقدمہ کی استدعا پر نقل فیصلہ اس کو دلائی جاتی ہے۔ اگر کسی متدین اور مستند عالم کے جانب سے فیصلہ شرعی کے خلاف کوئی شرعی اعتراض پیش ہو تو محکمۂ قضا نہایت منصفانہ اور محققانہ طور پر غور کیا کرتا ہے۔ لیکن بفضل خدا شروع سے تاحال کسی مستند اور محقق عالم نے فیصلہ شرعی کے نقل پر کوئی اعتراض پیش نہ کر سکا۔
قضات نواحی اور استیصال رسومات بد
محاکم قضا کے علاوہ باقی مذہبی معاملات کے اجراء کا صیغہ نیز اس خادم اسلام کے اہتمام سے چل رہا ہے۔ جو متعدد قضات نواحی اس کام کے لئے متعین ہیں۔ ہر ایک قاضی نواحی مذہبی اصلاح اور اسلامی معاملات کے اجراء کے لئے مصروف کار ہیں۔ ساتھ ہی محکمۂ احتساب بھی بڑی سرگرمی سے اس محکمہ کے ماتحت کام کر رہا ہے۔
محکمۂ افتاء
محکمہ قضا کے ساتھ صیغہ افتاء کو ایک خاص تعلق ہے۔ ریاست میں اس صیغہ کے متعلق پہلے کوئی اہتمام نہیں تھا۔ اس خادم اسلام نے سن ۱۳۳۰ھ میں اس صیغہ کو نیز قائم کیا۔ اس صیغہ کا نام محکمہ افتاء ہے۔ یہ محکمہ خاص اس خادم اسلام کے اہتمام اور کوشش سے منظم اور باقاعدہ طور پر چل رہا ہے۔ ریاست اور بیرون ریاست کے تمام اضلاع و املاک کے لوگ اس دار الافتاء سے مستفید