ہورہے ہیں۔ خدا کا فضل ہے کہ بڑے بڑے مشاہیر علماء اور فضلاء نے نیز بعض پیچیدہ اور لا ینحل مسائل کے لئے اس دارالافتاء کو اپنا مرجع قرار دیا ہوا ہے۔ باوجود یومیہ کثرت کے ہر ایک استفتاء کا جواب بلا کسی مطالبہ فیس وغیرہ کے بہ ترتیب نمبر ورود مفصل اور مدلل دیا جاتا ہے۔ شروع سے اس وقت تک فتاواؤں کا ایک بڑا ذخیرہ فراہم ہوچکا ہے۔ اگر زندگی نے وفا کی تو میں متعدد کتابی شکلوں میں اپنے فراہم کردہ اور ترتیب داوہ فتاوؤں کو طبع کراکر بغرض افادہ شائع کرنے کی کوشش کروں گا۔ انشاء اﷲ تعالیٰ!
جستجوئے شیخ طریقت
میں عہد طفولیت میں تھا کہ خواب میں یکایک جناب سرکردۂ اولیاء برگزیدہ عارفین خواجہ نقشبند بہاؤالدینؓ میرے پاس تشریف لائے۔ ان کا خوبصورت چہرہ مہتاب کی طرح منور اور دل آویز تھا۔ آپ نے ایک مخصوص انداز وار دلکش نظر سے میری طرف دیکھا اور میرے کان کو بڑی شدت سے جنبش دے کر فرمایا کہ اٹھ کر بخارا کو چلے جاؤ۔ جب فوراً میری آنکھ کھل گئی تو میرے دل کی گہرائیوں میں جذبات محبت کا ایک طوفان برپا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ میرے کان میں شدید درد کا احساس تھا ؎
رفتم کہ خار از پاکشم محل نہاں شد از نظریک لمحہ غافل بودم صد سالہ راہم دورشد
قبلہ والدم نے میرے سوزوگداز آہ وبکا سے مطلع اور باخبر ہوکر میرے پاس تشریف لائے اور مجھے اپنے مبارک سینہ سے لگا کر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ یہ واقعہ آپ کی روحانی ترقیات کا ایک پیش خیمہ ہے۔ قبلہ والدم کو جناب حضرت بہاؤالدینؓ نقشبند سے اس قدر بلند پایہ عقیدت اور انتہائی محبت تھی کہ اکثر اوقات میں ان کے اسم گرامی کو سنتے ہی آپ پر گریہ اور جذبہ طاری ہو جایا کرتا تھا۔ اگرچہ میں نے سن رشد کو پہنچتے ہی قبلہ والدم سے بیعت کا شرف حاصل کر لیا تھا۔ مگر والدم کے انتقال کے بعد میری مزید اشتیاق نے کسی شیخ طریقت کے جستجو کے لئے ایسا مجبور کیا کہ بے ساختہ مجھے اپنے روحانی مدارج کے طے پانے کے لئے شیوخ کی جستجو کی سرگردانی اٹھانی پڑی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں جناب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی خدمات میں ذیل کا قصیدہ عربیہ حوالۂ قلم کیاگیا۔