ہوجاتا ہے۔ پس اس قسم کے قیود کا محکمہ ہذا میں کوئی شائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا۔ اکثر حکام کی مرعوب کن روش سے فریق مقدمہ پر وہ رعب طاری ہو جایا کرتا ہے۔ جس سے وہ اپنے اظہار مدعا میں اکثر ناکامیاب رہ جاتا ہے۔ مگر خدا کے کرم وفضل سے مقدمہ کے سماعت کے دوران میں محکمہ قضاء اس امر کی رعایت میں انتہائی غور سے کام لیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی متبذل اور کسمپرسی فریق مقدمہ پر محکمہ کا کوئی رعب طاری نہ ہو جائے جو ہر ایک محکمہ کا یہ ایک اوّلین فرض ہے۔ مگر افسوس کہ اکثر حکام اپنی اس اہم ذمہ داری سے بالکل غافل ہیں۔ شرعی جرائم کے پاداش میں کسی کی وقعت وشان کا مطلقاً کوئی پاس روا نہیں رکھا جاتا۔ فصل خصومات میں امتیاز اور خصوصیت کو جرم عظیم سمجھا جاتا ہے۔ افسوس کہ موجودہ دور عصیاں میںمساوات کا لحاظ جو کہ دل کا ایک بڑا لازمہ ہے۔ کبریت احمر اور عنقاء کے مانند معدوم نظر آرہا ہے۔ فیصلہ کے لئے قرآن اور احادیث اور کتب معتبرہ فقہ حنفیہ کو دستور العمل قرار دیا گیا ہے۔ ان کے بغیر کسی اور قانون کو دخل دینا جرم عظیم سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ خدائے قدوس کو ہر ایک محکمہ سے غایت ہی انصاف اور عدل مطلوب ہے اور عدل اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا ہے جب تک کہ اس محکمہ کے ہاتھ میں شرعی قوانین کے دفعات کی باگ نہ ہو۔ ہر چند کہ انسانی دماغ کے اختراع کردہ قوانین بظاہر دلچسپ کیوں نہ ہوں۔ مگر جب خالق انسان کے منزل کردہ قوانین کا سایہ ان پر نہیں ہے تو وہ مثمر عدل بھی نہیں ہیں۔ عدل فطرت انسانی کا ایک اہم خاصہ ہے۔ جابجا قرآن حکیم نے عدل کو اس لئے میزان سے تعبیر کیا ہے کہ ظاہری میزان سے جس طرح انسان کا نظام صحیح طور پر قائم رہ سکتا ہے۔ اسی طرح عدل جو انسان کا اخلاقی اور روحانی نظام کا مدار ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کا تمام سلسلہ ایک ہی نظم میں منسلک ہے۔ ذرۂ ارضی سے لے کر اجرام سماوی تک سب ایک ہی قانون عدل کے ماتحت چل رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ موجودہ تمدن نے مسلمانوں کو اس اہم خصوصیت سے بھی بے بہرہ کر دیا ہے۔ جدھر دیکھا جاتا ہے۔ اغراض پرستی خواہشات نفسانی کا ہر ایک محکمہ میں دور دورہ ہے۔ حکام کے لئے قرآن مقدس کا یہ کس قدر تخویف آمیز اور ہیبت انگیز ارشاد عام ہے۔
’’ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاؤلئک ہم الکفرون… ہم الظلمون ہم الفٰسقون‘‘ {اور جو لوگ اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اﷲ نے اتارا ہے۔ تو وہی لوگ کافر ہیں۔ وہی ظالم ہیں۔ وہی نافرمان ہیں۔}
گوکہ قرآن میں اوپر کی آیات سے اہل کتاب کو خطاب ہے۔ لیکن ان تینوں آیتوں