صیغہ تدریس اور تعلیم
ابتدائی مراحل میں مذہبی دعوت وتبلیغ حق اور صیغہ قضا کے فرائض کے بجا آوری کے علاوہ میں نے صیغہ تعلیم وتدریس کو نیز قائم رکھا تھا۔ خدائے تعالیٰ کا فضل تھا کہ میری اس تعلیمی مساعی نے شہرت کا وہ درجہ حاصل کر لیا تھا کہ مختلف اکناف وجوانب سے طلبائے علم کے نزول وورود کے روز افزونی نے میرے حلقہ درس میں مزید اضافہ پیدا کر دیا۔ تقریباً عرصہ پندرہ سال تک میرے اس درسی نظام وانصرام سے کثیر التعداد طلباء مستفید ہوتے رہے،۔ جب صیغہ قضا اور صیغہ افتاء کے مشاغل واغراض کی کثرت نے مجھے اس سے عدیم الفرصت کر دیا تو تدریس کے صیغہ میں جو میری مزید توجہ تھی وہ مجبوراً کم کر دی گئی۔
صیغہ قضاء اور اس کی ہمہ گیری
چونکہ صیغہ قضاء کے اجراء کے لئے جس طرح علمی تبحر کی ضرورت ہے۔ اسی طرح تقویٰ ودیانت کی بھی ضرورت ہے۔ لہٰذا یہ ناچیز فرائض وحقوق قضا کی ہمی گیر تکمیل و تتمیم کے برداشت کرنے کے لئے اپنے آپ کو قاصر سمجھ رہا تھا۔ کیونکہ حکومت ودیعت کردۂ الٰہی ایک بہت ذمہ داری کا مسند ہے۔ یہ وہ پر خطر وقلق نما شعبہ ہے۔ جس میں صدہا علماء وفضلاء کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ مگر جب قبلہ والدم نے جو میرے ظاہری اور روحانی مربی تھے۔ اس مسند کے لئے مجھے مامور فرمایا تھا۔ لہٰذا میں نے ان کے اس خاص ارشاد کے پیش نظر خدائے قدوس پر اعتماد رکھ کر خلق اﷲ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو مجبوراً پیش کیا۔ پس صیغہ قضاء نے اپنی حسن اسلوبی کے ماتحت اس قدر جلد تر وسعت اور ہمی گیری اختیار کر لی تھی کہ حدود ریاست کے علاوہ باقی تمام ملحقہ آزاد قبائل نے اپنے ان مقدمات کے فیصلہ کے لئے جن کا تعلق شرعی احکام سے وابستہ ہے۔ نیز میرے اسلامی محکمہ کو مختص قرار دے دیا۔ جو بڑے اطمینان اور غایت وثوق واعتماد سے ان کا خاص یہی محکمہ مذہبی مرجع بن گیا۔ اس محکمہ کے لئے جس قدر مذہبی اختیارات کی ضرورت تھی۔ وہ تمام تر تفویض کر دئیے گئے۔ بدنی اور مالی تعزیرات کے لئے محکمہ ہذا کو مختارانہ حیثیت دی گئی۔ فصل خصومات کا صیغہ اگرچہ بعض آئین واصول کے ماتحت شروع سے چل رہا ہے۔ لیکن وہ آئین خدا کے فضل سے اس قسم کے ہر گز نہیں۔ جن کے ذریعہ انصاف وعدل کی آسانی میں کوئی خلل ونقص واقع ہو سکے۔ دور حاضرہ میں اکثر مہذب اقوام نے جو داد رسی اور انصاف کو ایسے عدالت سوز قیود میں جکڑ بند کر دیا۔ جن کے پیش نظر اکثر اہل مقدمات کو اپنے دعویٰ سے دستبردار ہوجانا آسان