بے وفا وبے قرار وبے بقاؤ بے ثبات
ہست دار دنیوی گر فہم داری بیگمان
شد غروب از دور عالم شمس عالم آنکہ ہست
بے شک از اوصاف او عاجز زبان واصفان
گر تو شہر علم راسازی مرکب بادرش
ہمچنان چوں بعلیک ناش بدانی بعد ازاں
محمد علی محمد علی
سال تاریخش چو جست اسحاق فرزندش زغیب
گفت ہاتف درنہان بد طائر باغ جنان
۱۳۲۴ھ
اس خادم اسلام کی متعلمانہ زندگی پر اجمالی نظر
میری تاریخ زندگی کے صفحات کو شاندان اور مزین بنانے کے لئے جو چیز زیادہ خصوصیت رکھتی ہے۔ وہ قبلہ والدم کی پدری شفقت اور ابدی مرحمت کے نوازشات ہیں۔ میرے ساتھ آپ کی شفقت ومحبت کے جذبات اس قدر موجزن رہا کرتے تھے کہ بسا اوقات رات کی گھڑیوں میں بھی میری خبر گیری کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے اوقات سفر اور لمہات حضر کے دونوں حالتوں میں زمانہ طفولیت سے لے کر عہد شباب تک ان کی ہم رکابی کا شرف خاص میرے لئے مختص تھا۔ آپ کے مقتضیات محبت کے پیش نظر آپ کی معلمانہ تدریس وتعلیم، مصلحانہ افہام وتفہیم میں بھی مجھے ایک نمایاں امتیاز کافخر حاصل تھا۔ ’’ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشائ‘‘ تمام علوم وفنون میں جس قدر جلد تر محیر العقول کامرانی اور غیر متوقع فائز المرامی کا شرف جو مجھے حاصل ہوا ہے۔ وہ سب کچھ آپ کی مسلسل دعاؤں اور خاص الخاص توجہات کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ میں قبلہ محترم کے حلقہ درس میں فارغ التحصیل ہوچکا تھا۔ لیکن ان کے وفات ہونے کے بعد خاص دورہ حدیث کے لئے جناب حافظ رمضان صاحب پشاوری وحافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کی خدمت میں یکے بعد دیگرے میرے اشتیاق مجھے کشاں کشاں لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد نواب محمد اکرم خان صاحب کے انتقال ہونے پر جناب نواب محمد خانی زمان خان صاحب نے عنان حکومت کو جب اپنے ہاتھ میں لے لیا تو انہوں نے ضرورت وقتی کے لحاظ کو مدنظر رکھ کر مجھے واپس طلب کیا اور بدستور عہدہ قضاء پر مامور فرمایا۔