آپ نے وعظ وارشاد کے لئے روز جمعہ کو متعین فرمایا تھا۔ ان کے اس مجلس ارشاد اور وعظ میں نواب محمد اکرم خان صاحب والئی ریاست بھی شامل جمعہ ہوکر مستفید رہا کرتے تھے۔ آپ نے ان کی اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کے لئے اپنی سبق آموز تذکیر سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ جوش بیان کی وہ حالت تھی کہ آنکھوں میں سرخی، آواز میں بلندی، حد اعتدال سے گذر جاتی تھی۔ اہل قلم ہونے کی حیثیت سے انتہائی جرأت وشجاعت کے مالک تھے۔ ظاہری اور باطنی دونوں علوم میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا ؎
احاطہ بکل علم فیہ نفع
فقل ماشئت فی البحر المحیط
؎
اے تو مجموعہ خوبی بچہ نامت خوانم
آپ کے درسگاہ میں کثیر لتعداد تلامذہ کا مجمع رہتا تھا۔ بلاد اسلامیہ مثلاً کابل، یارقند، غزنی، بنیر، سوات، کوہستان، پشاور وغیرہ سے فارغ التحصیل طلباء آپ کے حلقہ درس میں داخل ہوکر مستفید ہوا کرتے تھے۔ اطراف واکناف میں صدہا مشاہیر علماء وفضلاء کو آپ کی تلمیذی کا فخر حاصل ہے۔ مجھے آپ کے جزوی اور تشریحی واقعات کی جامعیت اور احاطہ مطلوب نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے کتاب بہت ضخیم ہو جائے گی۔ غرض آپ نے مراحل حیات کے آخر حصہ کو پہنچ کر عہدہ قضاء اور مسند تدریس کو خیرباد کہہ کر اپنی ڈیوٹی قضاء وغیرہ کو اس خادم اسلام کے ہاتھ میں دے کر اپنی باقی ماندہ سہ سالہ زندگی کو عزلت اور گوشہ نشینی کی تشکیل میں خالق اکبر کی یاد کے لئے وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ اس دوران میں بسا اوقات صحرا نشین رہا کرتے تھے۔ زمانہ عزلت میں آپ کے باطنی تصرفات اور عرفانی واقعات نے انتہائی مدارج کو حاصل کر لیا تھا۔ کرامات اور مکاشفات میں مزید سبقت حاصل کر لی گئی۔ جب آپ کا ۱۳۲۴ھ میں ماہ رمضان کو بعارضۂ اسہال وصال حق ہوا تو اس حادثہ کبریٰ کی اطلاع دفعتاً تمام اطراف وجوانب میں بجلی کی طرح پھیل گئی اور اہل ملک کے گھر گھر میں ماتم برپا ہوگیا۔ آپ کی تاریخ مرثیہ جو میرے فکر قاصر کا نتیجہ ہے ذیل میں درج ہے۔
گشت فانی گربدانی ہر کہ آمد درجہاں
دائماً باقی بدان قیوم قادر مستعان