اتفاق کر لیا تھا۔ حدیث ’’الماء من المائ‘‘ میں صحابہ کرامؓ کا خلافت عمرؓ تک باہم اختلاف تھا۔ آخر کارمہاجرین اور انصار کے اجتماع میں حضرت عمرؓ نے ازواج مطہرات سے اس بارے میں حدیث نبویؐ کا استفسار کیا۔ جب حدیث نبویؐ پیش لائی گئی تو تمام صحابہؓ کو اس پر اجماع واتفاق پیدا ہوگیا۔ علیٰ ہذا القیاس صحابہؓ کرام کو مانعین زکوٰۃ کے قتل میں صدیق اکبرؓ کی رائے سے اختلاف تھا۔ کیونکہ مانعین زکوٰۃ باقی شعائر اسلام نماز، روزہ،حج کے عامل تھے۔ اس لئے صحابہؓ ان کے قتال کو روا نہیں سمجھتے تھے۔ مگر جب حدیث نبوی: ’’من بدل دینہ فاقتلوہ ومن فرق بین الصلوٰۃ والزکوٰۃ فقد بدل‘‘ {جو اپنا دین بدل دے اس کو مار ڈالو۔ جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا یعنی زکوٰۃ کو فرض نہ سمجھا تو اس نے دین بدل دیا۔ مرتد ہوگیا۔} کو حضرت صدیقؓ نے پیش کیا تو اختلاف رفع ہوگیا۔
غرض نہ کسی مقلد شخص کے لئے جائز ہوسکتا ہے کہ اختلاف کے وقت حدیث نبویؐ کو متروک العمل قرار دے کر کسی فقہی روایت کو حکم ٹھہرا کر اس کو مرحج سمجھیں اور نہ محدث کے لئے یہ جائز ہوسکتا ہے کہ مطلقاً فقہی روایات کو خارج عن الحق سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ ’’ولنعم ما قیل‘‘
الفقہ قال اﷲ قال رسولہ
ان صح والاجماع فاالجہد فیہ
واخطاء من نسب الخلاف جہالۃ
بین النبی وبین رائی فقیہ
آپ تقویٰ وتصوف میں کمال رکھتے تھے۔ صفات نفسانیہ سے انسلخ اور ثبوت مع اﷲ کے حالات کے متعلق سب سے سبقت لے گئے تھے۔ قلبی صفائی کا وہ اوج اور شان تھا کہ ذرا گردن جھکا کر مراقبہ کرتے تو اور امور مخفیہ منکشف ہونے شروع ہو جایا کرتے تھے۔ عمال اور اہل دول آپ کی نظر میں پشہ جیسے بھی وقعت نہیں رکھتے تھے۔ ترفع ونمود، فخر ومباہات کے ذلت آمیز کارناموں سے کوسوں دور رہتے۔ بے تعلقی اور سادہ وضعی آپ کا شعار تھا۔ تواضع اور منکسر المزاجی حد اعتدال سے متجاوز ہوچکی تھی۔ جو نبویؐ اطاعت کی یہی حقیقت ہے اور یہ وہ بے بہا جوہر ہے جو بہت ہی کم لوگوں کو حاصل ہے ؎
ملت عشق از ہمہ دینہا جدا است
عاشقاں را مذہب وملت خدا است