افسوس کہ موجودہ دور تعصب وعصیان میں مذہبی تعصب نے عالم دنیا پر ایک خاص مہلک اثر ڈال دیا ہے۔ جس سے مسلمانوں کا گروہ اپنے مذہبی ترقی میں انتہائی سرعت کے ساتھ تسفل اور تنزل کا رخ اختیار کر رہا ہے۔ ایک فرقہ دوسرے فرقہ کی تکفیر اور تفسیق کو اپنی ایماندارانہ زندگی تصور کرتا ہے۔ گروہ احناف فرقہ محدثین کی توہین وتذلیل میں کوشاں ہے اور غالی محدثین ان کے خلاف تحقیر اور سوئے اعتقادی کو باعث اجر سمجھتے ہیں۔ اگر اس تعصب اور ضلالت کی رفتار دنیا میں اسی طرح رہی تو قلیل عرصہ میں ایماندارانہ زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مجتہدین نے جو اپنے قوت اجتہادی اور طرز استنباط سے مختلف مسائل کا استخراج کیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان کے اس اختلاف اور تعداد آراء کی وجہ سے ایک فرقہ دوسرے فرقہ کی تذلیل وتحقیر کو روا رکھے یا کسی ایک مجتہد اور امام کی تقلید کرنے میں دوسرے امام کے مسئلہ میں اطاعت سے اپنے آپ کو جماعت اسلامی میں منسلک ہونے کے قابل نہ سمجھے۔ موجودہ عصر میں یہ ہوا پرستی حد اعتدال سے گذر چکی ہے کہ اکثر مقلدین اور محدثین ایک دیگر کو عدم شمولیت جماعت کی وجہ سے غیر طریقہ حق پر سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ نماز میں اقتداء کرنے کو ایک فرقہ دوسرے فرقہ کے پیچھے جائز نہیں سمجھتا ہے۔ جہاں تک نصوص اور اسلامی روایات کا تعلق ہے ہر ایک مسلمان کا یہی ایمانی فریضہ ہونا لازمی ہے کہ جماعت اسلامی کا جو عقیدہ اور نصب العین ہے۔ وہی عقیدہ رکھنا چاہئے۔ پس اس مرکزی عقیدہ میں موافقت رکھنے کے بعد عملی پروگرام کے جزوی وفروعی تفصیلات میں اگر کہیں کچھ اختلاف رائے پیدا ہو جائے تو اس کو مذہب میں کچھ اہمیت نہ دی جائے۔ دیکھو خیرالقرون کے دور میں جب کبھی کسی مسئلہ میں باہم اختلاف پیدا ہو جایا کرتا تھا تو حدیث کے پیش آجانے پر وہ اختلاف مرتفع ہو جاتا تھا۔ کسی صحابی اور تابعی نے تعصب اور ضد سے کام نہیں لیا۔ حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کو صدیق اکبرؓ سے پیغمبر اسلامؐ کے میراث کے بارہ میں جب اختلاف ہوا تو حضرت صدیقؓ نے حدیث ذیل کی روایت کی۔
’’نحن معاشر الانبیاء لا نرث ولا نورث ماترکناہ صدقۃ‘‘ {ہم انبیاء کی جماعت نہ کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے۔ جو کچھ ہم پیچھے چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔} روایت کی تو باہمی جھگڑا مرتفع ہوگیا۔
کلالہ شخص کی تفسیر اور توریث جد میں حضرت ابوبکرؓ سے حضرت عمرؓ کا اختلاف تھا۔ مگر حضرت عمرؓ نے ابوبکرؓ کی رائے کو صحیح سمجھ کر اپنی وفات سے کچھ پہلے حضرت صدیق اکبرؓ کے قول سے