ابی حنیفہ فدعاہ بعلۃ شیٔ فسقاہ فماۃ (مناقب)‘‘ {منصور نے کہا یہ کون ہے جو ہماری حکومت میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ لوگوں نے ابوحنیفہ کو اس کا محرک بتلایا۔ خلیفہ وقت نے امام صاحب کو بہانہ سے طلب کیا اور زہر پلایا۔ جس سے آپ کا انتقال ہوا۔}
پس نہیں معلوم کہ باوجود اس قسم کی صحیح روایات کے اسلامی تاریخ میں کیوں ان کو سرسری طور پر نقل کیا ہے اور کیوں اکثر مؤرخین نے ان کی وفات ہونے کی وجہ میں انکار از قضا کی روایت کو زیادہ اہمیت دے دی ہے۔ غرض اسلامی نقطہ نظر سے قضا کا کام صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن اور موجب ثواب بھی ہے۔
قبلہ والدم کے عرفانی اور علمی دور کے ترقیات
آپ جب فصل قضایا کے لئے مسجد میں تشریف رکھتے تو آپ کے رعب وداب کا بہت کچھ اثر ہوا کرتا تھا۔ فیصلہ کے وقت امیر وگدا، غلام وآقا میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔ لسان وطن نے جو جو قوانین طے کئے ہیں۔ فصل خصومات میں وہی دستور العمل رہا کرتے تھے۔ عدالت کے وقت کوئی دربان اور نقیب نہیں ہوا کرتا تھا۔ حق گوئی اور راست گفتاری ان کا ایک خاص شیوہ تھا۔ کسی کی حاکمانہ حیثیت کا لحاظ رکھ کر حق بیانی سے آپ نے کبھی بھی پہلو تہی اختیار نہیں کی تھی ؎
خوش دل کش است قصہ خوبان روزگار
تو یوسفی وقصہ تو احسن القصص است
آپ کی مہارت فی القرآن اور معرفت فی الحدیث کا وہ منظر سامنے آتا تھا۔ جس سے ان کی علمی عظمت وجلالت کے داد دینے پر دوست دشمن مجبور تھے۔ اگرچہ وہ عامل بالحدیث تھے۔ مگر غلو اور تعصب سے کوسوں دور بھاگ رہے تھے۔ امام الائمہ ابوحنیفہؒ کی غیر معمولی عظمت ومحبت کا ان کے دل میں وہ عالم تھا کہ ان کی تفقہ فے الدین اور ورع اور تقویٰ کو بسا اوقات یاد کرکے آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ فقہی روایات کو عین قرآن وسنت کی تفسیر اور مبتیین سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’القیاس مظہر لا مثبت‘‘ فقہا اور مجتہدین کے پیش کردہ روایات کے آگے سر جھکا دینے کا باعث فلاح اور موجب ہدایت ورشد سمجھتے تھے۔ محکمہ قضا کے فیصلوں میں اکثر فقہی روایات سے امداد لیا کرتے۔
’’ھو مصداق ما قال بہ الشاعر۰ ماذا یقول الواصفون لہ وصفاتہ جلت عن الحصر۰ ھو حجت ﷲ قاہرۃ ھو بیننا عجوبۃ الدھر‘‘