قاضی حماد بھی انہیں جلیل القدر ائمہ سے تھے۔ جنہوں نے اپنی ساری زندگی کو قضا کے لئے وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ انہیں ائمہ کے متعلق امام اعظمؒ اپنے حلقہ درس میں فرمایا کرتے تھے۔
’’ھؤلاء ستۃ وثلثون رجلاً منہم ثمانیۃ وعشرون یصلحون للقضاء واثنان ابویوسف وظفر یصلحان کتادیب القضاء (مناقب ص۲۴۶)‘‘ {یہ چھتیس آدمی ہیں۔ جن میں اٹھائیس قاضی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دو یعنی ابویوسف اور ظفر قاضیوں کے تربیت وتعلیم کے قابل ہیں۔}
پس جہاں تک تاریخی واقعات کا تعلق ہے۔ امام اعظمؒ کے قتل کے اسباب چند ایک سیاسی معاملات ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ آپ کے شاگرد رشید امام ظفر فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؓ ابراہیم کی بغاوت کے زمانہ میں انتہائی شدت کے ساتھ آزادانہ طور پر ان کا ساتھ دے رہے تھے اور باقی اہل ملک کو نیز ان کا ساتھ دینے میں ترغیب دے رہے تھے۔ جس سے مطلع ہوکر خلیفہ منصور نے بڑی شدت سے امام ابوحنیفہؓ کو بغداد طلب کیا اور پندرہ دن کے قیام کے بعد آپ کو زہر پلایا۔ جو وہاں ہی آپ نے وفات پائی۔ (موفق ص۱۷۱)
صدر الائمہ علامہ ابوسعید المکی آپ کی وفات کی وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ متقدمین علمائے احناف سے متصل سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی جاتی ہے کہ ابومنصور کا ایک جرنیل حسن بن قحطہ جو ایک طویل عرصہ تک لوگوں کے قتل کرنے میں حسب الحکم منصور بڑی سفاکی سے کام لے رہے تھے۔ اس نے امام اعظمؒ صاحب سے اپنی توبہ قبول ہونے کے متعلق دریافت کی۔ آپ نے فرمایا کہ توبہ قبول ہے۔ مگر سچائی وصداقت شرط ہے۔ جس نے توبہ کی اور اس پر قائم رہنے کا عہد باندھا۔ اس دوران میں خلیفہ وقت نے حسن مذکور کے نام ابراہیم بن عبداﷲ کے ظہور ہونے پر اس کے ساتھ مقابلہ کے لئے حکم ناطق کیا۔ امام اعظمؒ نے حسن کو توبہ قائم رہنے کی تلقین فرمائی۔ جو حسن نے منصور کے حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا اور کہا کہ اب تک میں لوگوں کو آپ کی حکم کی تعمیل میں قتل کرتا چلا آیا ہوں۔ اگر یہ کوئی نیکی کا کام تھا تو یہ نیکی کافی طور پر مجھے حاصل ہوچکی ہے۔ اگر گناہ تھا تو معافی کا خواستگار ہوں۔ منصور کو اس کے اس انکار پر اشتعال پیدا ہوا۔ اس کے محرک کی تلاش کرتے ہوئے امام ابوحنیفہؒ کا سراغ نکالا اورا س کو بغاوت پھیلانے کے جرم کے سلسلہ میں زہر دے کر قتل کرایا۔
’’من ہذا الذی یفسد علینا ہذا الرجل فاخبروہ انہ یدخل علیٰ