ہے۔ جو بنی نوع انسان کے تمام شعبوں قومی، اجتماعی، شخصی، معاشرتی، تمدنی، تعزیری، سیاسی وغیرہ پر حاوی ہے۔ جیسا کہ وہ مذہبی تحریک رکھتا ہے۔ ویسا ہی سیاسی تحریک کا مالک ہے۔ شروع سے اسلام نے جہاں جہاں وسعت اختیارکی۔ وہاں ہی قضا کی بنیادیں بھی ڈالی جاتی تھیں۔ کسی حکومت کا تصور بجز اس قسم کے سامانوں کے جن سے فصل منازعات کا تعلق ہے۔ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ احادیث میں منصب قضا کے اختیار کرنے پر بعض تخویف آمیز اور تشدید انگیز روایات بھی موجود ہیں۔ لیکن اس قسم کی دھمکیوں کا تعلق صرف انہیں لوگوں کے ساتھ ہوسکتا ہے جو فرائض قضا کے انجام دہی کے لئے صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ یا جورو ریاکاری کی جھلک وتعیش ولالچ کے بدنما داغ سے معیوب ہوں۔ جو لوگ اس فریضہ کی اہمیت وعظمت کو مدنظر رکھ کر اس کی تکمیل میں حتی الوسیع انصاف وعدل سے کام لیتے ہیں اور خداتعالیٰ کی عظمت وجلال اور قیامت کے ہولناک محاسبہ کا تصور دل میں باندھ کر فیصلہ دیتے ہیں۔ ان کے حق میں انتہائی فضائل ومحاسن کا تذکرہ صحیح احادیث میں نیز موجود ہے۔ طبرانی میں بروایت ابن عباسؓ مروی ہے۔
’’لیوم من امام عادل خیرا من عبادت الرجل وحدہ ستین عاملا‘‘ {ایک دن حاکم عادل کا بہتر ہے۔ اکیلے آدمی کے ساٹھ سال کی عبادت سے۔}
صحیح مسلم میں ہے۔ جنت میں سب سے پہلے تین آدمی داخل ہوںگے۔ ان میں سے ایک حاکم عادل کو بیان فرمایا ہے۔ ہر ایک عبادت دو پہلوؤں پر مشتمل ہواکرتی ہے۔ ایک ثواب اور دوسرا عتاب۔ کیونکہ عبادات میں سے بعض ایسے ہیں جو کسل اور نہاون کے لحاظ سے باعث گناہ ہیں۔ جیسے نماز، اور بعض بخل کے باعث جیسے زکوٰۃ اور بعض کسل وبخل دونوں کے ذریعہ جیسے حج وجہاد۔ پس اس قسم کی عبادتوں کے متعلق نیز دھمکیاں موجود ہیں۔ مگر ان دھمکیوں کی وجہ سے عبادات الٰہیہ کا ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ مابہ التخویف کے ترک کرنے میں سعی کی جائے۔ غرض اگر قضا اس درجہ کا عظیم گناہ تھا۔ جس سے پہلو تہی کرنے کے سلسلہ میں امام اعظمؒ اس قدر جورو استبداد کے انصاف سوزواقعات کو برداشت کر رہے ہیں۔ آخر کار موت تک کی بازی نیز لگائی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ بعض راویوں کا بیان مظہر ہے تو امام اعظمؒ صاحب اپنے شاگرد رشید امام ابویوسفؒ کو کیوں قاضی القضاۃ ہونے کی اجازت بخشتے ہیں۔ بلکہ ایک درجن سے زیادہ وہی مشائخ اعلام اور مجتہدین عظام قضا کی خدمات کو انجام دے رہے تھے۔ جن کو آپ کی تلمیذی کا فخر حاصل تھا۔ چنانچہ قاضی امام محمد بن حسن، قاضی حسن بن زیاد، قاضی حفص بن غیاث، قاضی علی بن طبیان،