ملتہ (فتح الباری)‘‘ {حضرت عیسیٰ بن مریم، محمدﷺ کی تصدیق کے لئے نازل ہوںگے اور آپ کی ملت پر ہوںگے۔}
تفسیر رحمانی میں ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع میں یہ حکمت ہے کہ اﷲتعالیٰ نے آپ کو دین محمدی کی تقویت کے لئے محفوظ رکھا۔ جب کہ دین محمدی دجال کے ظہور سے بہت ہی ضعف میں ہو جائے گا۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس (دجال) کو قتل کردیں گے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کو اس نعمت جزیلہ جلیلہ کے لئے اس واسطے مخصوص کیاگیا کہ آپ کی نسبت حضرت مریم علیہا السلام کو آپ کی ولادت سے پیشتر ہی بشارت سنائی گئی تھی۔‘‘
’’ولنجعلہ ایۃ للناس (مریم:۲۱)‘‘ {تاکہ ہم اس کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کا ایک نشان بنائیں۔}
لہٰذا آپ اس انعام کے زیادہ مستحق ہیں۔ اس لئے رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں کہ: ’’انا اولی الناس بعیسیٰ بن مریم (الحدیث)‘‘ {مجھے عیسیٰ بن مریم کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ نسبت ہے۔} (رواہ البخاری)
ان دلائل واضحہ اور براہین قاطعہ سے اظہر من الشمس ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور قرب قیامت دوبارہ نازل ہوںگے۔ جیسا کہ بخاری شریف سے ذکر ہوچکا اور اس میں بقول مرزاقادیانی: ’’کسی تاویل یا مثیل کی گنجائش نہیں۔ بلکہ اسے ظاہر پر محمول کیا جائے۔‘‘ جیسا کہ حمامتہ البشریٰ کے حوالے سے گذرا۔‘‘
مگر مرزائی اخبار ’’پیغام صلح‘‘ کے مدیر صاحب کتاب وسنت کی تصریحات اور مرزاقادیانی کی شہادت کے باوجود اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’ان الجھنوں سے نکلنے کی ایک ہی راہ ہے۔ وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوسرے انبیاء کی طرح فوت شدہ تسلیم کرتے ہوئے (جو قرآن کریم سے ثابت ہے) ان کی دوبارہ آمد کا انکار کر دیا جائے اور اس کے وہ معنی کئے جائیں جو مرزاقادیانی نے کئے ہیں کہ نزول مسیح علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا مراد نہیں۔ بلکہ ان کی خوبو میں ان کے مثیل کا آنا مراد ہے۔ جیسے ملا کی نبی کی پیش گوئی میں الیاس کے دوبارہ آنے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے مثیل یوحنا کا آنا مراد لیا ہے۔‘‘
(پیغام صلح مورخہ ۱۸؍دسمبر ۱۹۶۸ئ)
قارئین کرام! مدیر ’’پیغام صلح‘‘ نے وفات مسیح علیہ السلام کے ثبوت میں جو استدلال قرآن مجید سے کیا ہے۔ اس کا جواب تو اپنے موقع پر دیا جائے گا۔ کیا مدیر ’’پیغام صلح‘‘ یہ بتاسکتے