دیگرے عہدہ قضا کے مشاغل کو انجام دیا کرتے تھے۔ بلکہ قرآنی معلومات اور باقی الہامی کتب کی تفہیمات سے پایا جاتا ہے کہ ارسال رسل میں سب سے انتہائی غرض یہی تھی کہ وہ اہل زمانہ کے جھگڑوں کا فیصلہ کریں۔
’’کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اﷲ انبیین مبشرین ومنذرین وانزل معہم الکتٰب بالحق لیحکم بین الناس فیمااختلفوا فیہ‘‘ {لوگ ایک ہی گروہ تھے۔ پھر خدا نے انبیائوں کو مژدہ سنانے اور دھمکی دینے کے لئے بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اس مقصد کے مدنظر نازل فرمائی کہ لوگ باہم جن معاملات میں جھگڑ رہے تھے۔ ان میں فیصلہ کریں۔}
’’انا انزلنا الیک الکتٰب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اﷲ‘‘ {اے پیغمبر! ہم نے تم پر کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تاکہ لوگوں کے درمیان اس طرز پر آپ فیصلہ کریں۔ جیسا کہ خدا تمہیں سمجھائے۔} بلکہ قضا اور دادرسی کے لئے عام لوگوں کو ارشاد ہے۔
’’اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا باالعدل‘‘ {جب تم لوگوں میں فیصلے کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔}
حضرت معاذؓ ابن جبل کو جب یمن کے لئے قاضی مقرر کیاگیا تو اوّلاً ان کی تجربہ علمی اور طرز عمل کا امتحان لیاگیا۔ چنانچہ ترمذی میں ہے: ’’قال رسول اﷲﷺ لمعاذ بن جبل حین وجہہ الی الیمن بما تقضیٰ قال بما فی کتاب اﷲ قال فان لم تجد قال بما فی سنۃ رسول اﷲ قال فان لم تجد قال اجتہد رائی فقال رسول اﷲﷺ الحمد ﷲ الذی وفق رسول رسول اﷲ لما یحب رسول اﷲ‘‘ {رسول اﷲﷺ نے جب معاذؓ بن جبل کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کس چیز سے مقدمات کا فیصلہ کرو گے۔ انہوں نے کہا قرآن مجید سے۔ آپؐ نے فرمایا اگر اس میں وہ فیصلہ تم کو نہ ملے۔ انہوں نے کہا احادیث سے، پھر آپؐ نے فرمایا اگر احادیث میں بھی اس کے متعلق ہدایت نہ ملے تو انہوں نے کہا میں اپنی رائے سے اجتہاد کروںگا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا اس خدا کا شکر ہے۔ جس نے رسول اﷲﷺ کے رسولؐ کو اس چیز کی توفیق دی۔ جس کو خود اس کا رسولؐ محبوب رکھتا ہے۔}
بہرحال قضاایک ایسا عمل ہے جس کو خود انبیائے کرام نے انجام دیا ہے اور باقی مسلمانوں کو اس کے لئے مامور فرمایا۔ کیونکہ اسلام ایک ایسا وسیع وجامع حیثیت کا دستور اساسی