منصور کے حکم سے ابن ہبیرہ گورنر نے آپ کو اس حد تک تازیانے لگائے کہ: ’’حتیٰ قطع لحمہ‘‘ یعنی آپ کے جسد مبارک کا گوشت کٹ کٹ کر گر گیا تھا۔ تقریباً تمام مؤرخین کا اس انصاف سوز واقعہ پر اتفاق ہے۔ لیکن جب سوال پیش ہوتا ہے کہ اسلامی حکومتوں بنی امیہ وبنی عباس نے کیوں اس قسم کی سفاکی وبربریت کے لئے اقدام کیا۔ اس مذہب حنیف کے باقی اقدام اور مؤسس اولین سے جس کی ملی اور مذہبی زندگی میں تقریباً چالیس کروڑ آبادی کا ایک ثلث سے زیادہ مجمع عظیم معتقدانہ جذبات رکھتا ہے۔ کیوں ایسا جابرانہ معاملہ برتا گیا۔ جو جواب میں انتہائی سادگی سے کہا جاتا ہے کہ ان دونوں حکومتوں نے عہدہ قضاء کے تسلیم کرنے کے لئے التماس پیش کی تھی اور امام صاحب نے انکار کیا۔ جس سے وہ اس قسم کی مسلسل سزاؤں کے تختہ مشق بن گئے تھے۔ چنانچہ اس واقعہ کے پیش نظر بعض اہل زمانہ نیز صیغہ قضا کو روایات اسلامیہ سے منافی سمجھتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آخر کار قضاء اختیار کرنا کس اسلامی روایت کے پیش نظر باعث گناہ ہے۔ جس سے امام اعظمؒ نے اس شدت کے ساتھ انکار واصرار کیا۔ تاکہ اس ضمن میں جیل کی سزائیں بھگتیں۔ کوڑوں کی سزا منظور کی۔ آخر جیل کی تنگ وتاریک کوٹھریوں میں پیمانہ حیات خود کو لبریزکر دیا۔ اسلامی روایات کا جہاں تک تعلق ہے اور میرا علمی حافظہ جہاں تک رفاقت کرتا ہے۔ فصل قضا یا، اقامت عدل، رفع منازعت کا صیغہ صرف جائز اور مباح ہی نہیں بلکہ اسلامی ملت کے ضروری فرائض اور لازمی مقاصد میں داخل ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ نے اس فریضہ کی تکمیل کے لئے اس قدر جدوجہد سے کام لیا ہے کہ متعدد مقامات میں مختلف صحابہؓ کو قضات ولاۃ مقرر کیا۔ چنانچہ عمرؓ بن ہزم نجران میں، معاذ بنؓ جبل یمن میں، علیؓ ابن ابی طالب مدینہ میں، ابوالعاصؓ یمن میں، زیادؓ بن لبید شہر بازان میں، عمرؓ بن العاص عمان میں مقرر کئے گئے تھے۔ ہر ایک کو ملکی انتظام فصل مقدمات تحصیل خراج وغیرہ کے لئے متعین کیا گیا تھا۔ جیسا کہ باقی نظم ونسق کے لئے ارشاد تھا ویسا ہی فصل مقدمات اور رفع منازعات کے لئے حکم عام تھا۔ پیغمبر اسلامﷺ اپنی پیغمبرانہ زندگی کے تمام مراحل میں مدینہ اور حوالئی مدینہ کے فصل خصومات کے فرائض کو بذات خود انجام دیتے رہے۔ احادیث وتواریخ میں آنحضرتﷺ کے فیصلوں کا اس قدر وافر ذخیرہ موجود ہے کہ ان کا استقصاء کرنا مشکل ہے۔ کتب احادیث میں کتاب البیوع ان کے دیوانی مقدمات کے فیصلوں سے مملو ہیں اور کتب القصاص میں فوجداری منازعات کے فیصلوں کا اس قدر ذخیرہ موجود ہے کہ اگر تدوین کی جائے تو ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی۔ آپ کے بعد خلفائے راشدین یکے بعد