بشارت سناتا ہے۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اﷲ، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اﷲ اور محمد رسول اﷲ، حبیب اﷲ، صلوٰۃ اﷲ علیہم اجمعین کی نسبت حکایۃ من روح اﷲ علیہ السلام سورہ صف میں ذکر کیا۔ ’’ومصدقا لما بین یدیّ من التوراۃ ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد (صف:۶)‘‘ {تصدیق کرنے والا توراۃ کی جو میرے آگے ہے اور بشارت دینے والا ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔}
اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دونوں، یعنی مبشر اور مصدق (ہر دو بصیغہ اسم فاعل) ثابت ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصدق بصیغہ اسم مفعول جو وصف چہارم ہے۔ کیونکہ تصدیق کتاب مستلزم ہے۔ تصدیق رسول کی اور آنحضرتﷺ مبشر بہ وصف دوم جناب رسالت مآب کی نسبت سورہ صافات میں فرمایا۔ ’’بل جاء بالحق وصدق المرسلین (صافات:۳۷)‘‘ {بلکہ حق لے کر آیا ہے اور رسولوں کی تصدیق کرتا ہے۔}
اس میں آنحضرتﷺ کا وصف مصدق اسم فاعل مذکور ہوا۔ چونکہ حضرت روح اﷲ علیہ السلام بھی زمرۂ مرسلین میں سے ہیں۔ اس لئے ان کی صفت مصدق اسم مفعول ثابت ہوئی۔
پس اس سلسلہ میں حضرت روح اﷲ علیہ السلام کے چاروں وصف ثابت ہوئے اور آنحضرتﷺ کے صرف دو یعنی مبشربہ بصیغہ اسم مفعول اور مصدق اسم فاعل آنحضرتﷺ کے لئے بوجہ سیادت اور ختم رسالت اوصاف اربعہ کا ظہور بالفعل ضروری ہے۔ پس اگر آپ کے اوصاف کی تکمیل بالفعل کے لئے کوئی نیا رسول بھیجا جائے تو خاتم النبیین کا شرف باقی نہیں رہتا اور اگر ختم نبوت کی رعایت کی جائے تو اوصاف مبشر بصیغہ اسم فاعل اور مصدق بصیغہ اسم مفعول کا ظہور نہیں ہوتا۔ جو شان سیادت کے شایان نہیں۔ اس لئے اﷲ حکیم کی حکمت بالغہ اس امرکی مقتضی ہوئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ رکھا جائے۔ جن کی آمد ثانی کی بشارت سے آپ کا لقب مبشر بصیغہ اسم فاعل ظاہر ہو جائے اور حضرت مسیح علیہ السلام دنیا میں آ کر اس امر کی تصدیق کریں کہ محمد رسول حق ہے اور آپﷺ کی صفت مصدق اسم مفعول ظاہر ہو جائے۔ پس اس طریق حکیمانہ سے ختم نبوت بھی قائم رہی۔ کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام آنحضرتﷺ سے پہلے رسول بن چکے ہیں اور اسی نبوت سے پھر آئیں گے۔ نیز رسول اﷲﷺ کے اوصاف اربعہ بھی پورے ہوگئے۔
چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری، باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام میں بتخریج طبرانی حدیث عبداﷲ بن مغفل مذکور ہے: ’’ینزل عیسیٰ بن مریم مصدقاً بمحمد علیٰ