’’قالوا کیف تکلم من کان فی المہد صبیاً (مریم:۲۹)‘‘ لیکن تکلم فی الکہولۃ کا ذکر قرآن مجید میں نہیں۔ جو بعد نزول من السماء ہوگا۔ فافہم!
دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے: ’’ویعلمہ الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل (آل عمران:۴۸)‘‘ {سکھائے گا اس کو کتاب وحکمت، تورات اور انجیل۔}
قرآن مجید میں جہاں حکمت وکتاب اکٹھا بصیغہ مضارع آیا ہے۔ وہاں بجز قرآن وسنت کے اور کچھ مراد نہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن وسنت، توراۃ اور انجیل کا وعدہ فرمایا اور وعدہ خداوندی میں خلاف محال ہے۔ توراۃ اور انجیل کی تعلیم ہوچکی۔ قرآن وسنت کی تعلیم بعد نزول من السماء ہوگی۔
اور سنئے! اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا (النسائ:۱۵۹)‘‘ {اور نہیں ہوگا کوئی اہل کتاب میں سے۔ مگرایمان لے آئے گا۔ اس پر اس کو موت سے پہلے اور وہ ان پر قیامت کے دن شاہد ہوگا۔}
لیؤمنن مع لام قسم اور نون تاکید ثقلیہ کے ہے۔ کتب نحو میں مصرح ہے کہ نون تاکید مضارع کو خالص استقبال کے لئے کر دیتا ہے۔ ماضی اور حال کے لئے نون تاکید نہیں آتا۔ اس مسئلے میں کسی نحوی کا اختلاف نہیں اور نہ کسی آیت قرآنی یا حدیث نبویؐ یا کلام عرب میں اس کے خلاف نون تاکید کا استعمال پایا گیا ہے۔
مراد الٰہی اس آیت مبارکہ سے یہ ہوئی کہ آئندہ زمانہ میں ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے۔ جس میں سب اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ضرور آپ کے مرنے سے پہلے ایمان لے آئیں گے اور آپ ان پر قیامت کے دن شاہد ہوں گے۔
چونکہ ابھی تک بالاتفاق اہل کتاب قاطبۃً حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے پر محقق نہیں ہوئے۔ لہٰذاآپ ابھی تک فوت بھی نہیں ہوئے ہیں۔ آیت ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں مسیح علیہ السلام کا صعود الیٰ السماء مذکور ہوا تو سامع کے دل میں ایک سوال پیدا ہوتا تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان سے کبھی نازل بھی ہوں گے یا نہیں؟ سو اﷲتعالیٰ نے بطور استیناف (جواب وسوال مقدر) فرمایا کہ آخر زمانہ میں آپ نزول فرمائیں گے اور ان کے نزول کے وقت یہ ہوگا کہ اہل کتاب باالاتفاق آپ پر ایمان لے آئیں گے۔