وکاست مع اپنے بیان کے قارئین کرام کی تفریح طبع کے لئے پیش کرتے ہیں۔ تدبر اور تفکر کے بعد انصاف کے ترازو پر تولنا اور راجح جانب کا جانچنا غیر متعصب دل اور بے لاگ چشم کا کام ہے۔
خلیفہ صاحب فرماتے ہیں۔ ’’یہ سوال اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے۔ جن میں سے ایک اس کا ’’مذہبی پہلو‘‘ ہے۔ ہمارا بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ ان پیش گوئیوں کے مطابق دنیا میں مبعوث ہوئے ہیں جو مسیح ومہدی کے متعلق اسلام میں پائی جاتی ہیں۔ یہ سوال الگ ہے کہ ان کا دعویٰ صحیح تھا یا غلط۔ بہرحال جب ہم انہیں مسیح ومہدی تسلیم کرتے ہیں تو لازماً ہم سے انہی باتوں کی امید کی جائے گی جو رسول کریمﷺ نے آنے والے کے متعلق بیان فرمائی ہیں اور جب ہم احادیث کو دیکھتے ہیں تو ان میں ہمیں رسول کریمﷺ کا ارشاد نظر آتا ہے: ’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم‘‘ اور ایک روایت میں ہے ’’امکم منکم‘‘
یہ ابتدائی تقریر خلیفہ صاحب کی اور حدیث جو سند کے طور پر عدم جواز اقتداء مسلم میں پیش کی ہے۔
مرزائی دوستو! ہمیں حدیث پر اعتراض نہیں اور نہ یہ حق ہے کہ کہیں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔ اتباع نہ کرو۔ ’’من اسأ فعلیہا من ضل فانما یضل علیہا‘‘ ہم یہ دعا کرتے ہیں۔ اﷲ آپ پر راضی ہو اور ہدایت دے۔ چشم حق بین اور ذہن حق فہم عطا کرے۔ ’’تدبروا تفکروا‘‘ کے عامل ہوکر غور وخوض کی عادت پیدا کرو۔ خلیفہ صاحب کی کورانہ تقلید کا قلادہ گلے سے اتار پھینکو۔ یہی حدیث خلیفہ صاحب کے عقیدہ کی دھجیاں فضائے بسیط میں اڑاتی ہے۔ آپ خوش ہیں کہ خلیفہ صاحب نے کیا عمدہ توجیہ بیان فرمائی۔ اس حدیث سے تو مندرجہ ذیل چار باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ جو ہر چہار تمہارے عقیدہ کے خلاف ہیں۔
۱… آنے والا مسیح، مریم کا بیٹا ہوگا۔
۲… نزول فرمائے گا۔ ۳… امت محمد مصطفیؐ سے نہیں ہوگا۔ بلکہ امت کا غیر ہوگا اور امت میں شامل ہونے کی خواہش ہوگی۔ اسی لئے ’’نزل فیکم‘‘ فرمایا کہ تم میں آئے گا۔ ’’نزل منکم‘‘ نہیں فرمایا کہ تم میں سے آئے گا۔
۴… امامت اس جماعت میں رہے گی جو امت محمدؐ میں ہے اور جو گروہ