مسلمانوں سے منقطع ہوکر کسی مسیح کی امت ہونے کا قلادہ پہن لے گا انہیں امامت کا حق نہ ہوگا۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ نص صریح میں حضورﷺ نے فرمایا کہ آنے والا مسیح موعود ’’ابن مریم ہوگا۔‘‘ نص محکم اور صریح کی تاویل محض اس لئے کہ کوئی کور چشم دشمن اعتراض کرتا ہے یا اپنا مطلب بر نہیں آتا جائز نہیں۔ جب اشارۃً بھی کہیں بیان نہیں ہوا کہ آنے والا مسیح ابن مریم کے اوصاف رکھتا ہوگا۔ مرزائی دوست بہت سے علماء کے اقوال سند کے طور پر پیش کیا کرتے ہیں کہ تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے۔ غیر تشریعی نبوت ختم نہیں ہوئی۔ جس کا جواب اپنے مقام پر آئے گا۔ کہیں سے ٹوٹے پھوٹے دلائل ہی سہی، یہ بتادیں کہ اس حدیث میں ابن مریم کے معنے ابن مریم کے اوصاف والا نبی مراد ہے۔ ورنہ مرزا قادیانی کے اپنے مطلب کے لئے یہ مفہوم گھڑ لینے سے مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی کوئی دلیل چاہئے۔
ہم تھوڑی دیر کے لئے آپ کو یہ بھی موقع دیتے ہیں کہ ابن مریم سے مراد ابن مریم کے عادات واخلاق کا انسان مسیح موعود بن کر آئے گا۔ آپ مرزا قادیانی کے اخلاق وعادات کا موازنہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق کے ساتھ کرنے کو تیار ہیں۔ جبکہ ان کے دشمن مرزا قادیانی کے دشمنوں سے حدت وشدت میں کئی گناہ زیادہ تھے۔ مسیح ناصری (عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے تو مذہب پیش کیا کہ اگر تمہاری گال پر کوئی ایک تھپڑ مارے تو دوسری گال بھی پیش کردو۔ اور مرزا قادیانی ہیں کہ ایسے زمانہ میں ورود فرمایا کہ کسی کو مار سکنے کی طاقت تو نہ رکھتے تھے۔ اگر طاقت ہوتی ایک تھپڑ کے بدلے دس تھپڑ مارتے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر کسی مغضوب الغضب نے ایک گالی دی تو جواب میں دس گناہ بے نقط اور ایسی مغلظ گالی سنائیں کہ ایسی گالی سے قبحائوں کی ضمیر بھی شرماتی ہے اور یہ گالیاں آپ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ مرزائیوں کو ان گالیوں سے انکار نہیں۔ البتہ یہ جواب ہے کہ مولویوں کی گالی کے جواب میں یہ گالی ہے:
گربۂ مسکیں اگر پرداشتے
تخم کنجشک از جہاں برداشتے
دوسری صفت جو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام میں خصوصیت سے پائی جاتی تھی مال وزر سے متنفر اور گوشہ نشین فقیر تھے۔ لیکن مرزا قادیانی نے حصول زر کے وہ قانون تراشے کہ اقتصادیات کے بانی بھی حیران رہ گئے۔ اسلام میں اڑھائی روپیہ سینکڑہ یعنی سال کے بعد