بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
مرزائیوں کے دجالی استدلال کی حقیقت
مرزائیوں کے دجالی استدلال نمبر۳
الفضل ۹؍اگست ۱۹۵۰ء کے حوالہ سے مہتمم نشرواشاعت جماعت مرزائیہ ربوہ ضلع جھنگ نے ایک ٹریکٹ شائع کیا ہے جس میں خلیفہ صاحب ثانی کا مدلل جواب ’’احمدی دوسروں کی اقتداء میں نماز کیوں نہیں پڑھتے‘‘ شائع کرکے ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کا پورا پورا نقشہ کھینچا ہے۔ خلیفہ صاحب کو ہم اس پہلو سے کہ ایک خاصے دار کے مالک اور ایک جدید مذہبی جماعت کے قائد ہیں، نظر استخفاف واستحقار سے دیکھنے کی بجائے نظر استحسان سے دیکھنے کے قائل ہیں۔ گو عقیدہ میں کفر واسلام کا بعد تفرقہ انداز ہے۔ ہمیں وہ کافر کہیں یا ہم انہیں ختم نبوت جیسے حتمی عقیدہ سے انکار کے سبب جو محکمات قرآنی سے ثابت ہے ارتدار اور ترک اسلام کا ملزم گردانیں۔ مقصد، نتیجہ ایک ہی ہے۔ لیکن ہم انہیں برا کہنے اور سب وشتم اختیار کرنے کے برخلاف ہیں۔ اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کافر یا اس کے معبود کو برا کہیں۔ لیکن اگر کوئی جماعت یا گروہ مسلمانوں کے خلاف اسلامی بہروپ میں یہودیت وعیسائیت کی اشاعت کرے اور اسلامی مصنوصات کو اتباع ہوا کے رنگ میں تاویلات سے پیش کرے تو اپنے فطری جوہر اور اسلامی اخلاق کو ہاتھ سے نہ دیتے ہوئے ان کے پوشیدہ اغراض ومقاصد کا اظہار وانکشاف اور چھپی خواہشات کی قلعی کھولنا کوئی جرم نہیں۔ تاکہ سادہ لوح عوام ان کے دجل وفریب سے محفوظ رہ سکیں۔
یہاں ہم صرف یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جناب خلیفہ صاحب کو ایک معمولی سے سوال کا جواب تراشنے میں کتنے پہلو تبدیل کرنے پڑے اور کن کن چور دروازوں میں گھسنا پڑا۔ پھر بھی:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا
کے مصداق ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ کئی پہلو بدلے۔ خوب اچھلے۔ لیکن سر کے بل آئے۔ جو حدیث اپنی تائید میں پیش کی۔ وہی عین تردید تھی۔ جو دلائل پیش کئے بدل کی ضلالت کا بیّن ثبوت ہوئے۔ اس لئے ہم یہاں ان کی بیان کردہ حدیث توجیہات وتائیدات سمیت بے کم