اور علم کلام کا پورا ماہر تھا۔ ادیب بھی تھا نہایت متقی پرہیزگار اور زاہد تھا۔ ایک زمانہ تک اس نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی تبلیغ نہایت زوروشور سے کی۔ بلاتخصیص جس کسی کو برے کام کرتے دیکھا۔ اسے منع کیا اور نیک کام کی رغبت دی۔ اس زہد وتقویٰ نے خلقت کو اس کا مسخرومطیع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۵۱۴ھ میں اپنی سحربیانی سے اپنے مجدد اور مہدی ہونے کی تمہید شروع کر دی اور کچھ دنوں کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز وعظ کی حالت میں دس آدمی کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ جو خوبیاں امام مہدی کی آپ بیان کرتے ہیں۔ یہ تو سب آپ ہی میں پائی جاتی ہیں۔ آپ ہی امام مہدی ہیں۔ لائیے ہاتھ ہم بیعت کریں۔ محمد بن تومرت نے ان سب سے بیعت لی۔ پھر توقبیلے کے قبیلے لوگ اس کے مطیع ہونا شروع ہوگئے۔ بادشاہ وقت کو جب معلوم ہوا تو فوج لے کر اس کی طرف چلا۔ جب وہ قریب آگیا تو ابن تومرت اپنے معتقدوں سے یہ پیشین گوئی کر کے کسی طرف چلاگیا کہ میں تمہیں فتح یابی کی بشارت دیتا ہوں۔ تمہارا تھوڑا گروہ مخالف کی بیخ وبنیاد اکھیڑ دے گا اور ہم اس کے ملک کے مالک ہوںگے۔ چنانچہ بادشاہ سے جب لڑائی ہوئی تو بادشاہ کو شکست ہوئی اور ابن تومرت کی جماعت کو فتح ہوئی۔‘‘
ابن تومرت کی طرح اور بھی ایسے آدمی گذرے ہیں جو پہلے کسی طرح قوم کے سردار اور معتمد ہوگئے ۔ اس کے بعد پھر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ مثلاً طریف جو انتہائے مغرب میں قوم برغواطہ سے تھا۔ ابتداء میں یہ غریب شخص تھا۔ مگر جب یہ کسی طرح قوم کا سردار اور بادشاہ ہوگیا تو پھر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔
اسی طرح صالح بن طریف جو پہلے اپنی قوم میں عالم اور صاحب خیر یعنی نہایت دیندار مشہور تھا۔ جب اس کے ہاتھ میں ایک جماعت اور قوم کی سیادت اور سلطنت آئی تو اس نے بھی اپنے پہلے خیال کو خیرباد کہہ کر ترک کیا اور اپنے کو نبی بلکہ خاتم الانبیاء کہنے لگا اور جدید قرآن کے نازل ہونے کا دعویٰ کیا۔ جس کی چند سورتوں کے نام یہ ہیں۔ سورۃ الدیک، سورۃ الحمر، سورۃ الفیل، سورۃ ہاروت وماروت وغیرہ۔ اسی طرح اور لوگ بھی ہیں۔ جن کی تفصیل فیصلہ آسمانی حصہ دوم اور رسالہ عبرت خیز میں ملاحظہ ہو۔ مسلمانو! اس فتنہ اور پرآشوب زمانہ میں خواجہ کمال الدین صاحب کی موجودہ روش بالکل ابن تومرت کے ایسی ہے اور ان کی یہ سب دلفریب باتیں محض اسی غرض سے ہیں کہ پہلے مسلمانوں کو تبلیغ اسلام کے نام سے اپنی طرف متوجہ کر کے تبلیغ مرزائیت کی زمین تیار کر لی جائے۔ پھر اس کے بعد صاف لفظوں میں مرزاقادیانی کی نبوت ورسالت کا اعلان کیا جائے۔ لہٰذا میں نہایت بہی خواہی کی نظر سے اپنے برادران ملت کو اس