ناظرین ملاحظہ کریں کہ یہاں خواجہ صاحب اپنے خیال میں آیت قرآنی سے مرزاقادیانی کی نبوت کو ثابت کر کے ان کے منکر کا وہی حشر بتاتے ہیں۔ جو منکر آیت قرآنی کا ہے۔ یعنی جہنم، اور یہ بیان ایک ہی جگہ نہیں بلکہ متعدد جگہ ہے۔ (ص۱۰تا۱۳) دیکھا جائے مگر ہر مقام پر اس طریقہ سے لکھا ہے کہ اکثر عوام دیکھ کر خوش ہوں۔ مگر ان کا دلی مقصد ہر ایک نہ سمجھے۔ اس رسالہ کا اصلی مقصد یہی ہے کہ حضور عالی نظام دکن خلد اﷲ ملکہ کو مختلف طریقہ سے متوجہ کر کے مرزاقادیانی کی نبوت کو ثابت کریں اور انکے منکر کو جہنمی بتا کر حضور عالی کو توجہ دلائیں۔ اب ایسی کھلی کھلی معتبر شہادتوں اور ان کی صریح تحریر کے ہوتے ہوئے۔ یہ سمجھنا کہ خواجہ کمال الدین کا عقیدہ اور ان کا اسلام وہی اسلام ہے۔ جس کو حضرت نبی کریمﷺ نے پہنچایا ہے اور جس کی صحابہ کرام، سلف صالحین نے پیروی کی ہے۔ واقعہ کے خلاف ہے۔ نیز خواجہ کمال الدین کے متعلق یہ حسن ظن رکھنا کہ وہ مرزاقادیانی کو نبی اور رسول نہیں مانتے ہیں۔ ان کی تحریری شہادتوں کے بالکل خلاف ہے۔ پس خواجہ کمال کی یہ دورنگی کہ زبان سے مرزاقادیانی کی نبوت اور رسالت کا انکار کریں اور تحریر میں مرزاقادیانی کی رسالت کی تبلیغ کریں۔ یہ ایسی منافقت پروری اور فریب ہے کہ عوام کیا بعض خواص بھی اس کے دام میں آگئے اور اس منافقت تک ان کی نظر نہ پہنچی اور ان کی دلفریب باتوں کو ایک سچے مسلمان کا سچا بیان سمجھا۔ مگر ہم مسلمانوں کو ان کی خیرخواہی کے لئے صاف لفظوں میں بتادینا چاہتے ہیں کہ خواجہ کمال کی دلفریب باتوں پر ہرگز یقین نہ کریں اور سمجھیں کہ یہ مرزاغلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر وہی چال چل رہے ہیں جو روش مرزاغلام احمد قادیانی نے ابتداء میں مسلمانوں کو اپنے فریب میں لانے کے لئے اختیار کی تھی اور جب کامل شہرت ہوگئی اور ایک جماعت کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تو پھر پردہ سے نکل کر علانیہ صاف لفظوں میں اپنی نبوت اور رسالت کا اعلان کیا اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور جہنمی ٹھہرایا۔
برادران اسلام! آپ خوب یاد رکھیں کہ ہمیشہ ایسے لوگوں نے جو درپردہ اسلام کے دشمن تھے۔ پہلے دنیا پر اپنے کو اسلام کا سب سے بڑا خیرخواہ اور متبع شریعت اور مبلغ اور اسلام کا بہترین نمونہ بناکر پیش کیا ہے اور اس ذریعہ سے ایک جماعت کو اپنا ہم خیال بنا کر پھر اپنی منافقت اور بدطینتی کا اظہار کیا ہے۔ جو تاریخ کے دیکھنے والے حضرات پر پوشیدہ نہیں ہے۔ اس جگہ ہم بہ نظر اختصار کامل ابن اثیر کی جلد دہم سے ایک واقعہ مختصر لفظوں میں نقل کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل فیصلہ آسمانی کے حصہ دوم میں ملاحظہ ہو۔ ’’انتہائے مغرب میں ایک پہاڑ ہے۔ جس کا نام سوس ہے۔ وہاں کا رہنے والا ایک شخص محمد بن تومرت تھا۔ بہت بڑا عالم فقیہ تھا۔ حدیث کا حافظ تھا۔ اصول فقہ