سمجھتے۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہاں۔ ہمارا اسلام اور ہے اور آپ کا اسلام اور۔ یہ کسی مولوی عربی داں کا مقولہ نہیں ہے۔ لائق انگریزی داں کا قول ہے۔ اب دیکھا جائے کہ صاف بات نہیں کہتے۔ مگر اسلام میں فرق بتارہے ہیں۔ اس طرح کہتے ہیں کہ بات بنانے کی بہت گنجائش رہے۔ تیسرا شاہد ان کا رسالہ ہے۔ جس میں انہوں نے خاص حضور نظام والی دکن کو تبلیغ کی ہے اور اس کا نام تبلیغ بحضور نظام رکھا ہے اور صحیفہ۱؎ آصفیہ بھی اسے لکھا ہے اور چھپوا کر ہزاروں تقسیم کیا ہے۔ اس رسالہ کے ص۲۸ سے مرزاقادیانی کی پیشین گوئی لیکھرام کے متعلق بڑے زور دار الفاظ میں بیان کی ہے اور ص۳۰ میں اس کے پورا ہونے کو علم غیب قرار دے کر لکھتے ہیں کہ علم غیب کے راز کسی نجوم۲؎ یا جعفر کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ انہی پر ظاہر ہوتے ہیں جو خدا کے برگزیدہ مرسل ہوتے ہیں۔ (اس میں صاف طور سے مرزاقادیانی کو خدا کا برگزیدہ رسول قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں غیب کی بات انہوں نے بیان کی ہے) پھر اپنے دعویٰ پر آیت پیش کرتے ہیں۔ ’’عالم الغیب فلا یظہر علیٰ غیبہ احداً‘‘ اﷲ کسی کو غیبی امور سے اطلاع نہیں دیتا۔ مگر اپنے خاص رسول کو، جب لیکھرام کی پیشین گوئی سچی ہوگئی تو قرآن پر ایمان رکھنے والوں کا فرض تھا کہ اس غیب کے بتلانے والے کو قبول کرتے۔ لیکن ایسا نہ کیاگیا۔ لوگوں نے نص قرآنی کی تکذیب کی اس لئے ان کا وہی حشر ہوا۔ جو مکذبین آیات الٰہی کا ہوا کرتا ہے۔
۱؎ یہ رسالہ دوسری مرتبہ رفاہ عام پریس لاہور ۱۹۰۹ء میں ساڑھے تین ہزار چھپ کر اس میں سے ایک ہزار صرف حیدرآباد میں مفت تقسیم ہوا ہے اور حکیم نورالدین کی طرف سے حضور نظام دکن کی خدمت میں پیش ہوا ہے۔ مسلمان اس جوش اور تدبیروں پر غور کریں۔
۲؎ ایڈیٹران وناظرین اخباروں کی اس بے خبری یا فریب دہی کو ملاحظہ کریں کہ عام طور سے اخباروں میں پیشین گوئیاں چھپتی ہیں اور تمام ناظرین اخبار انہیں دیکھتے ہیں اور اکثر پیشین گوئیوں کا پورا ہونا بھی معائنہ کرتے ہیں۔ مگر خواجہ صاحب کی جرأت کو دیکھئے کہ اس سے صاف طور سے انکار کرتے ہیں اور اس کی خبر نہیں رکھتے کہ جس طرح متعدد علوم عقلیہ ہیں۔ اسی طرح ایک علم نجوم ورمل بھی ہے۔ جس طرح اور علوم کی باتیں عقل سے معلوم ہوتی ہیں۔ اسی طرح نجوم ورمل سے بھی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر انہیں علم غیب کہنا جہالت ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ علم غیب کسے کہتے ہیں۔